لندن (جیوڈیسک) یورپی یونین کے سربراہ ژاں کلودینکر نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ یورپی یونین سے اپنی علیحدگی پر جلد از جلد اپنی پوزیشن واضح کرے۔ انہوں نے یورپی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ دوست رہے گا لیکن اسے غیریقینی صورتحال سے بچنے کیلئے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا جتنا جلد ممکن ہو ہمیں حالات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے لیکن ابھی بھی میں اداس ہوں کیونکہ میں کوئی روبوٹ، بیوروکریٹ یا ٹیکنوکریٹ نہیں۔ میں ایک یورپی ہوں اور مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ مجھے برطانیہ کے ریفرنڈم کے نتیجے پر افسوس ہے۔ دریں اثنا وزیر صحت جیرمی ہنٹ نے برطانیہ کی علیحدگی کی شرائط پر دوسرا ریفرنڈم کرانے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علیحدگی کیلئے آئندہ انتخابات سے تھوڑے دن قبل تک تاخیر کی جا سکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ تاخیر کم سے کم 2022ء تک ہو گی۔
ادھر جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے اس وقت تک کوئی بات نہیں ہوسکتی جب تک وہ یورپی یونین سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان نہیں کرتا۔ برطانوی وزیر خزانہ جارج اوزبورن نے کہا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے بعد برطانیہ کو ٹیکسوں میں اضافہ اور اخراجات میں کٹوتی کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشکل فیصلے آئندہ آنے والے وزیر اعظم کو کرنا پڑیں گے۔
اوزبورن نے بی بی سی ریڈیو ’فور‘ سے انٹرویو میں کہا کہ اْنھوں نے ریفرنڈم کی مہم کے دوران معیشت پر منفی اثرات کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا اس پر وہ قائم ہیں اور یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد معیشت کی صورتحال کچھ زیادہ خوش کن نہیں ہوگی۔ ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک اور یورپی کمیشن کے صدر ژان کلودینکر سے ملاقاتوں کے بعد باقی یورپی رہنماؤں کے ساتھ عشائیے میں شرکت کریں گے۔ دریں اثنا برطانیہ کے وزیرِ صحت جیرمی ہنٹ نے تجویز دی ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے معاہدے کی شرائط پر ایک اور ریفرنڈم کرایا جائے یا پھر عام انتخابات منعقد کرائے جائیں۔
اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ یورپی یورنین سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کے بعد بھی وہ یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سوچ کو تعمیری ہونا چاہئے۔ برسلز اجلاس میں شرکت کیلئے پہنچنے پر کیمرون نے کہا وہ یورپی یونین سے تجارت اور سکیورٹی پر قریبی تعلقات چاہتے ہیں۔ ادھر یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ یورپی یونین کا ستمبر میں منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران اتحاد کے مستقبل پر غور کیا جائیگا۔ آئی این پی کے مطابق برطانوی دارالحکومت لندن کے میئر صادق خان نے کہا ہے کہ لندن کو زیادہ خودمختاری دی جائے تاکہ یہ شہر برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد سے نظر آنے والی اقتصادی بے یقینی سے نمٹ سکے۔
علاوہ ازیں یورپی یونین سے انگلینڈ کی علیحدگی کے فیصلے کے بعد بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورز (ایس اینڈ پی) نے برطانیہ کی کریڈٹ ریٹنگ کم کردی۔ پہلے برطانیہ کو سب سے زیادہ ٹرپل اے (AAA) ریٹنگ حاصل تھی جس میں دو درجے کی کمی کی گئی ہے۔ دوسرے کریڈٹ ریٹنگ ادارے فچ نے بھی برطانیہ کی ریٹنگ میں ایک درجے کی کمی کی ہے۔ یورپی یونین سے برطانوی انخلا کے ووٹ کے بعد سے عالمی مارکیٹیں مندی کے بحران سے نہ نکل سکی ہیں اور ابھی تک امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کی مارکیٹیں مندی کا شکار ہیں۔ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین سے انخلا کے فیصلہ کے نتیجہ میں برطانوی کرنسی پائونڈ کی قدر میں کمی سے برطانیہ میں مقیم بھارتی شہریوں کی آمدنی میں 10فیصد سے زیادہ کمی ہو گئی ہے۔
علاوہ ازیں یورپی یونین سے انخلا کے برطانوی فیصلے نے جہاں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں یورپ میں مقیم پاکستانی بھی پریشان ہو گئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ برطانیہ کے یورپی پارلیمنٹ سے نکلنے سے مسئلے کشمیر پر بھی اثر پڑیگا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے بعد دیوانگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے جو درست نہیں۔ انہوں نے کہا برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے اور ٹرمپ کی سیاسی مقبولیت میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔
اے ایف پی کے مطابق برطانوی اپوزیشن لیڈر جرمی کاربائن اپنی پارٹی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ پارٹی کے 172افراد نے ان کے خلاف جبکہ صرف 40نے حمایت میں ووٹ دیا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے ڈیوڈ کیمرون کی جگہ نئے وزیراعظم کا اعلان 9ستمبر کو کیا جائے گا۔