ستاروں پر کمند

Stars

Stars

تحریر : ضیغم قدیر

سترہ سالہ بچی ماہین جو روزانہ لیاری کے ستر بچوں کو بلا معاوضہ پڑھاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ بچے منشیات کے عادی ہو جائیں ماہین انکو گلیوں سے پکڑ پکڑ کر لاتی ہے، انہیں پینسل ، کٹر اور ریزر سے اٹھنے والی مہک کے نشے میں مبتلا کر دیتی ہے۔

ماہین یہ تک پرکھ لیتی ہے کہ اسکے کس شاگرد کو قدرت نے کن مہارتوں سے مالا مال کیا ہے۔ ماہین کسی کی ریاضی سنوار رہی ہے تو کسی کے ننھے وجود میں چھپے آرٹسٹ کو آشکار کر رہی ہے۔ کسی کی انگریزی درست کر رہی ہے تو کسی کی الجبرا سدھار رہی ہے۔

ماہین کا باپ کرائے کے پیسے بچا کر بچوں کے لیے کتابیں خرید رہا ہے، بیٹی ان بچوں کو پڑھا رہی ہے۔
ماہین فخر سے کہتی ہے ’’سر ان بچوں میں سے بہت سے اب اسکول جا چکے ہیں‘‘۔

اس سترہ برس کی بچی کا کردار تعلیمی پراجیکٹس پر کام کرنے والی بیسیوں این جی اوز پر بھاری ہے!

کراچی ادبی میلے میں دستاویزی فلم کا ایک مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں اسکول کے بچوں نے اساتذہ کی نگرانی میں حصہ لینا تھا۔ ماہین نے لیاری کی گلیوں سے کچھ ممولے اٹھائے اور شاہینوں سے لڑوانے پہنچ گئی۔ ایک فلم تیار کی جس کا عنوان ’’ہم انتہاپسندی کو شکست دیں گے‘‘ رکھا۔

جو اساتذہ تعلیمی اداروں سے اپنے شاگردوں کو لائے تھے، وہ دیکھتے رہ گئے اور ماہین بلوچ کے ممولے، جن کا والی وارث پندرہ برس کی ماہین کے سوا کوئی نہیں تھا، پہلے انعام کے حقدار ٹھہر گئے۔

بلاشبہ ماہین کئی این جی اوز اور مجھ سے بیکار سے نوجوانوں سے ہزار درجے بہتر ہے جو کئی بچوں کو انکی منزل دے رہی ہے۔

تحریر : ضیغم قدیر