ادارے اور ان سے وابستہ کام ہمیشہ کوشش کی کہ ذمہ داری سے کروں تا کہ اکثریت کی طرح صرف یہ دُکھ نہ رہے کہ مجھے یہاں سے کیا ملا؟ بلکہ زندگی میں جب کبھی پیچھے نگاہ دوڑاؤں تو یہ اطمینان روح کی گہرائی تک محسوس ہو کہ کچھ دیا ہے٬ جو ادارے کے لے عوام الناس کے لئے میرے وطن کے لئے کہیں میرا حصہ بنا کام کی وجہ سے ہی شائد پی ٹی آئی فرانس کے وجود میں آتے ہی میں جُڑی اس سے٬ میں آج بھی یہی کہتی ہوں میری پی ٹی آئی ڈاکٹر رزاق ٬ عمر رحمان اور یاسر قدیر ہیں
یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے دن ملے اور ان کو دیکھ کر بہت سکون ملا کہ پڑھے لکھے سلجھے ہوئے باشعور لوگ ہیں ٬ پی ٹی آئی فرانس دیگر پرانی سیاسی جماعتوں کے لئے ایک معّمہ بن کر ابھری تھی٬ سامنے کم عمر ذہین لڑکے جو سیاسی تجربہ گو نہیں رکھتے تھے لیکن ذہانت سوچ تحریکی ارتعاش دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے دردِ سر بن گیا٬
پے درپے کامیاب ایک سے ایک بڑا پروگرام٬ لوگوں کا اژدھام تصاویر کی بھرمار راتوں رات سب کے سب چمکتے ستاروں کی طرح ہر ویب کی زینت بن گئے٬ یہ سب کچھ بہت اچھا دکھائی دے رہا تھا ٬ لیکن کہیں دور دوربین لگائے کچھ شکاری کچےّ ذہنوں کو تاک رہے تھے اور پھرغیر محسوس طریقے سے انتشار پھیلانے کا آغاز ہوا٬ بے معنی بحث ٬ طعنہ زنی عدم برداشت اور دروغ گوئی بڑہنے لگی٬ ایک طرف کسی کو جان بوجھ کر بے معنی انداز میں سُپر سٹار بنا کر حسد جلن رقابت کا ماحول بنایا گیا تو ساتھ ہی دوسری طرف اس کو کہا گیا کہ فلاں نے اعتراض کیا آپ کی بہترین کوریج ہے ٬ یہ چھوٹے چھوٹے مسائل بڑے بنا کر دکھائے گئے اور وہ “” کُنبہ “” جو بڑی شان و شوکت سے اکٹھا دکھائی دے کر ایک مثال بن رہا تھا٬
وہ بکھرنے لگا رابطے ٹوٹے باتوں میں تحقیر آنے لگی٬ فاصلے بڑھے اور پھر دوریاں طویل خلیج بن کر سب کے درمیان حائل ہو گئیں ٬ مخلص لوگ نظریاتی سوچ رکھنے والے اس وقت بری طرح گھائل ہو کر تڑپ رہے تھے لیکن بے بس تھے ٬ سیاسی ملکہ ابلیسیت اپنا کاری وار کر کے دور تمام فائدے حاصل کر کے سب کو جُدا کر کے دور شاہانہ محل میں طمطراق سے بیٹھی سب کا منہ چِڑا رہی تھی کچھ وقت گزرا تو سب کو ہوش آنے لگی٬ ارد گرد والوں کو دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ سب تو وابستہ ہی دوسری سیاسی قوت سے تھے ان سب کی باتوں میں آکر بنا بنایا گھر مِسمار کر دیا٬
Pakistan
وہی ستون جو بھربھرے ہو کر زمین بوس ہونے کو تھے ٬ یکلخت اپنے قائد کی پختہ سوچ کو تھام کر پھر ایک دوسرے کو سہارا دے کر مضبوطی سے کھڑے ہونے لگے٬ پاکستان میں تمام سیاسی مخالفین کے ساتھ ایک ساتھ الجھا ہوا غیور نہ بِکنے والا آج ایک نیا پیغام تھا ـٌ اُن سب کے لئے جن کو سیاست میں نوآموز سمجھ کر ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا٬ اب ہوش آرہا تھا٬ کیا کھویا کیا یہ احساس اب اجاگر ہونے لگا
ذات کی اہمیت ٬ شہرت ٬ جانبداری نے دور پناہ لے لی اور اب اصل غیور تحریکی کارکن جاگ اٹھا تھا٬ جس کو اس دشوار وقت میں اپنے قائد کا ساتھ تحریکی سوچ کے ساتھ مضبوطی سے دینا تھا٬ سب کے چہرے وقت نمایاں کر چکا تھا٬ پُرانے ساتھی اُسی پہلے دن کی سوچ کے ساتھ ایک بار پھر پی ٹی آئی کو ویسے ہی یکجا کر کے اسی تعداد میں ہر انسان کو اس کے معیار پے رکھتے ہوئے خُدا کرے کہ ایک بار پھر مُنظّم ہو جس میں ورکر کو اپنی افادیت پے بھروسہ ہو ٬ جس پے انتظامیہ کو اپنی قوتِ فیصلہ پے مکمل اعتبار ہو٬
اور پارٹی ڈونیٹرز کو پارٹی پے ذاتی اثر و رسوخ کی بجائے مناسب جگہہ پر پارٹی کیلئے پیسہ فراہم کرنا مشکوک نہ لگے٬ سب کے اپنے اپنے دائرے کھینچ کر اپنی حدود کے تعین کے ساتھ اخلاص کی اولین ضرورت ہے٬ اگر پی ٹی آئی فرانس پھر سے اپنا کھویا ہوا تشخص برقرار رکھنا چاہے تو؟ ٌ