مودی کی اسلام اور پاکستان دشمن پالیسیاں

Narendra Modi

Narendra Modi

بھارت میں مودی حکومت نے اقتدا ر تو سنبھال لیا ہے لیکن اس کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی جہاں مسلمانوں پر حملوں میں یک دم تیزی آئی وہیں اس نئی حکومت نے اپنی پاکستان و اسلام دشمن پالیسیوں پر بھی تیزی سے عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ ابھی انتخابات کے نتائج بھی بہت دور تھے اورووٹنگ جاری تھی کہ آسام میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ان لوگوں نے بھارتی شناختی کارڈ پر ووٹ ڈالے تھے لیکن ان کے بارے میں مودی نے بہت پہلے کہہ دیا تھا

یہ لوگ چونکہ بنگالی بولتے اور مذہب کے لحاظ سے مسلمان ہیں اس لئے ان کو حکومت میں آتے ہی بنگلہ دیش دھکیل دے گا۔پھر ہندئوو نے اس کی ہدایت پر عمل بھی کر کے دکھا دیا۔ اعلان کامیابی کے ساتھ بنگلور کی تین مساجد پر حملے کئے گئے اور تباہی مچانے کے ساتھ مسلمانوں کو مارا گیا۔تادم تحریر سب سے بڑی کارروائی بھارت کے کئی شہروں میں ایک ساتھ ہوئی ہندوئوں نے فیس بک پر شیوا جی اور بال ٹھاکرے کی تصاویر کی توہین کا الزام مسلمانوں پر عائد کر کے ملک کے کئی شہروں میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

مساجد اور مدارس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے گھروں، املاک پر بھی حملے ہوئے ۔ پونے، کولہا پور، شولا پور اور مہاراشٹر کے دیگر علاقوں میں احتجاج کرنے والے شیو سینکوں نے مسلمانوں پر پتھرائو کیا۔ بسوں کو نقصان پہنچایا۔ پونے سے جمعیة علماء صدر مفتی محمد شاہد اور جنرل سیکرٹری حافظ اسرار احمد خان نے بتایا کہ رات کے وقت پمپری چنچوڑ علاقے میں ہندو شرپسندوں نے کچھ مسلم املاک اور تین مساجد کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح ایک مدرسہ کے تین طلباء کو بھی زخمی کیا گیا۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ایک رکن نے بتایا کہ ہندو شرپسند عناصر عوامی جذبات کا استحصال کر رہے ہیں۔ صرف پونے اور پمپری چنچوڑ میں ایک ہی رات 14 مساجد پر پتھرائو کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ”پمپری چنچوڑ میں واقع ایک مدرسے پر ہندو شرپسندوں نے زبردست پتھرائو کیا اور اسے آگ لگانے کی کوشش کی۔ اسی اثناء میں مدرسے میں موجود طلبہ اور مسجد کے امام نے اپنی جان بچانے کے لئے مدرسے کی دوسری منزل سے چھلانگ لگا دی جس کی وجہ سے طلبہ اور مسجد کے امام کو شدید چوٹیں آئیں اور متعدد کے بازو، ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ یعنی ہے آج بھارت میں مسلمانوں کے ہر روز خراب تر ہوتی صورتحال۔

دوسری طرف نومنتخب بھارتی وزیراعظم نے اپنی تقریب حلف برداری میں سارک ممالک کے سربراہان کو خصوصی طور پر مدعو کیا تھا جس کی اقوام عالم میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ ویسے تو بھارت کی جانب سے یوں اپنے پڑوسی ممالک کو بلانا بھی ان کی توہین کرنا ہی تھا کہ ہم خطے کے بڑے چودھری ہیں لہٰذا ہمارے اس شو میں چھوٹے اور تماشائی بن کر شریک ہو جائو… یہ تو ظاہری سی بات ہے کہ ان ممالک کے سربراہان کو وہاں حلف برداری کے شو کو دیکھنے کے لئے تماشائی ہی بننا تھا سو وہ بن گئے۔

ویسے تو پاکستان کے علاوہ بھارت کے سبھی پڑوسی ممالک اس کی باج گزار ریاستیں بنے ہوئے ہیں۔ نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا تو بھارت کے سامنے اونچا کھانسنے کی بھی جرأت نہیں رکھتے۔ اب رہ گیا بنگلہ دیش تو وہ گزشتہ برس سے مسلسل بھارت کی کالونی ہی بنا ہوا ہے اور عملاً وہاں بھارت کی ہی حکومت ہے۔ اب رہ گیا افغانستان تو وہاں امریکہ نے بھارت کو جو کردار دے دیا ہے اور دے رہا ہے اس کے بعد افغانستان بھی بھارت کے سامنے دم مارنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکا ہے۔ اس خطے میں دو ہی ممالک بھارت کے لئے درد سر یا مقابلے کی پوزیشن میں ہیں۔ ان میں ایک چین ہے تو دوسرا پاکستان۔

India

India

بھارت نے تقریب حلف برداری کے موقع پر سارک ممالک کا انتخاب اسی لئے کیا تھا کہ اگر اس نے پڑوسی ممالک کا فیصلہ کیا تو چین اس میں لامحالہ شامل نہیں ہو گا… تو لازماً اس کی سبکی ہو گی، سو اس نے سارک کا نام لے لیا۔جب بھارت سے تقریب حلف برداری کی دعوت آئی تو ملک کے سبھی حلقے اور سبھی طبقے کہہ رہے تھے کہ ہمارے نوازشریف اس تقریب میں لازماً شریک ہوں گے اور ان کی غیر حاضری کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم نواز شریف بھارت سے اپنی محبت و دوستی کا بار بار اظہار کرتے ہی رہتے ہیں۔ انہوں نے تو اپنی وزارت عظمیٰ کا حلف بھی بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے لینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

بہرحال بھارت سے دعوت آئی تو ہمارے وزیراعظم وہاں خراماں خراماں چل دیئے لیکن نریندرا مودی نے اپنے گھر آئے بلکہ خود بلائے مہمان سے جو سلوک کیا، اس پر ایک عالم حیران ہے کہ یہ کیا ہوا؟… نریندر مودی نے پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کی تو حیدرآباد ہائوس میں، جی ہاں وہی حیدرآباد جس نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا، لیکن بھارت نے بزور طاقت اس پر قبضہ جما لیا تھا۔

حیدرآباد ہائوس میں ملاقات کا مطلب تو صاف اور واضح پیغام تھا لیکن اس پر کسی نے کوئی بات نہ کی۔ بہرحال جب پاکستانی وزیراعظم ملاقات کے بعد باہر نکلے تو ان کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ نومنتخب بھارتی وزیراعظم نے حلف کے بعد کسی دوسرے ملک کے سربراہ مملکت سے اپنی پہلی ہی ملاقات میں جو رویہ اختیار کیا وہ ان کی ساری سوچ کا غماز ہے۔

نریندر مودی نے بلا کسی لحاظ کے پاکستانی وزیراعظم کو دو ٹوک کہا کہ وہ اپنے ملک میں ”دہشت گردی” کے اڈے بند کریں ممبئی حملوں کے سلسلے میں گرفتار لوگوں کے حوالے سے مقدمہ کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق کریں… وغیرہ وغیرہ۔

دوسری طرف وہی پاکستانی وزیراعظم جنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی مسئلہ کشمیر کو اپنی پہلی اور اولین ترجیح میں شامل کر رکھا ہے اور انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب سے لے کر ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھایا ہے، یہاں وہ خاموش ہی رہے۔ وہ جب باہر نکلے تو انہوں نے میڈیا سے بہت معمولی بات کی اور آگے چل دیئے۔ وجہ صاف اور واضح تھی کہ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ بیان کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔

ان کی اس ملاقات پر جب پاکستانی میڈیا اور سیاسی و مذہبی شخصیات نے تبصرے کئے کہ پاکستانی وزیراعظم کو چارج شیٹ تھمائی گئی ہے اور پاکستانی وزیراعظم نے کشمیر پر جواباً بات ہی نہیں کی تو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ کشمیر ایجنڈے پر ہی نہیں تھا اور چارج شیٹ تھمائے جانے کی بات ہی غلط ہے۔

یہاں ہمارا سوال ہے کہ اگر کشمیر ایجنڈے پر نہیں تھا تو کیا ممبئی حملے اور پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات اور دیگر امور جنہیں بھارتی وزیراعظم زیربحث لایا تو کیا وہ سب ایجنڈے پر تھا؟ یہ ملاقات کیا اسی لئے تھی…؟ اور پاکستانی وزیراعظم نے بھارت کے سب سے بڑے بزنس مین سے تو ملاقات کی لیکن حریت رہنمائوں سے ملاقات نہ کی جس سے کشمیری رہنما پریشان ہوئے۔

وزیراعظم نے جب بھارت جانے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید نے انہیں وہاں جانے سے روکا تھا لیکن اس وقت وہ کب باز آنے والے تھے۔ انہوں نے وہاں جا کر اپنے دل کا ارمان تو پورا کر لیا لیکن کتنے دن گزرے ان کی زبان سے اب بھارت کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا، بھارت سے دوستی لگانے والوں کو اس سارے واقعہ سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ اسی بھارت کے ساتھ امن کی آشا کا تماشا لگانے والوں کو بھی اب کھل کر اپنی ناکامی ذکر کرنا چاہئے کہ ان کے پسندیدہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا اور اپنے گھر بلا کر ایک ایٹمی طاقت سے کیسے پیش آیا؟

بھارت میں اس وقت مسلمانوں پر حملے عروج پر ہیں۔ بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی شق 370 کو سب سے پہلے ختم کرنے کے اعلان پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا ہے۔ اب ساری دنیا خاموش ہے۔ کسی کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کی توہین دکھائی نہیں دیتی۔ اس مسئلے کا حل صرف پاکستان اور پاکستان کے وزیراعظم جناب نواز شریف کے پاس ہے۔ اگر وہ دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن سمجھ کر پالیسیاں ترتیب دیں گے تو مسائل حل ہوں گے ورنہ اس طرح ہماری رسوائی کے مناظر دنیا دیکھتی رہے گی۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر :علی عمران شاہین