پاکستان میں سیاسی حالات کب، کیسے ، کیوں اور کون بدلتا ہے یہ کہنا زرا مشکل ہے ۔ عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ جیو گروپ کے موجودہ سربراہ شکیل الرحمن میڈیا کی توسط سے پاکستان میں سیاسی گیم کھیلا کرتے ہیں اور خود کو کنگ میکر بھی سمجھتے ہیں ۔ بعض لوگ وائٹ ہاؤس امریکا کے اوپر بھی الزام لگاتے ہیں کہ سب کچھ وائٹ ہاؤس سے حکم صادر ہو تا ہے۔
بعض لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں کہ سیاست دانوں کی مفادات نظر انداز ہوتے ہیں تب ہی سیاسی تبدیلیاں شروع ہوتی ہیں ،اور کچھ لوگ بیرونی ایجنٹ تصور کرتے ہیں ہر اُس شخص کو جس کی کم وقت میں پزیرائی زیادہ ہوجائے۔ جیسا کہ عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بھی ایک تازہ مثال ہے۔ 2011سے قبل ون مین شو کہلانے والا شخص نے اچانک پاکستان کی سیاسی میدان دھوم مچا دی تھی۔
درجنوں سیاسی قائدین کی شمو لیت ہو گئی ۔ آخر کار ایک صوبے میں زیرو ہوئے تو دو صوبوں میں کچھ پا لیا اور ایک صوبے میں حکومت قائم کر دی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب پورا پاکستان عمران خا ن کے ہاتھ میں ہے ۔ باقی سیاستدان جو عمران سے متفق نہیں ہیں وہ گھر بیٹھیں کیوںکہ لاہور اور کراچی ، کو ئٹہ میں تاریخی جلسے کر کے سیاسی میدان میں ہل چل مچائی تھی ۔ خدا جانتا ہے کہ عمران خان کے پیچھے کو ن ہے ؟ کون تھا ؟ اب جبکہ پاکستان کی سیاسی میدان میں دوسرا شخص کو دو سال بعد پیدا کیا جا رہا ہے یا خود بخود پیدا ہو رہا ہے؟
اس میں مختلف رائے ہو سکتے ہیں۔ لیکن طاہر القادری صاحب کی اتنی مقبولیت نہیں جتنی عمران خان کو حاصل تھی ۔ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ہٹلر اور شہباز شریف کو مسو لینی قرار دیا ہیاور اپنے کارکنا ن کی قتل کا انتقام لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔جب ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان آ ئے ہیں میڈیا کی بہترین کوریج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بچوں کی طرح بضد ہو کر جہاز میں 6گھنٹے اندر رہنا اور بیان بازی کرنا۔
نواز شریف اور گورنمنٹ آف پاکستان پر تنقید کرنا، فوج کو اپنی سیکو رٹی کے لئے خواہش پیدا کرنا، با ر بار فوج کی تعریف کرنا اور انقلاب اور حکومت کے خاتمے کا دعوے کرنا جیسے باتیں جن سے محسوس ہو رہا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری بچوں کی طرح بضد ہوئے ہیں ۔ آخر کار گورنر پنجاب کے ساتھ ہی جہاز سے اترنے لگے۔
پنجاب کے نیم وزیر اعلیٰ سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف زیادہ اور نا زیبا بیانات کے بعد اس کو کابینہ سے فارغ کیا گیا ۔ ایک اور رانا مشہور کو مطلب رانا مشہود کو صوبائی وزیر قانون بنا یا گیاجس نے گزشتہ روز انکشاف کیا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک مہناج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جان کو خطرات لاحق ہیں ۔ یہ بات سن ڈاکٹر طاہر القادری کافی پریشان ہوئے ہیں ۔ جان کو خطرات لاحق ہونے کی وجہ دسمبر2013 ء کو بھی اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد احتجاج میں کرنے کے دوران بلٹ پروف کنٹینر میں رہائش پزیر ہوئے تھے۔
شاید علامہ و ملانا اور شیخ اسلام ڈاکٹر طاہر القادری سے کو خدا پر یقین نہیں ہے کہ بلٹ پروف کا سہارا لیتے ہیں۔ جہاز سے نا اترنا بھی سیکورٹی کا معاملہ بتا رہے تھے۔ ہائی بلٹ پروف کی درخواست اور گورنر پنجاب چوہدری سرور کے ساتھ ان کی بلٹ پروف گاڑیوں میں اپنے رہائش گاہ تک گئے۔ موت سے ڈرنا جائز ہے مگر موت سے چھپنا بے وقوفی ہے ایسا اس عالم الدین کو تو زیب نہیںدیتا ہے۔
Pakistan
ایسے لوگ انقلاب ہر گز نہیں لاتے ہیں مانتے ہیں کہ ان کی باتیں درست ہیں مگر نیت اور عمل ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انقلاب کے نعرے اور حکومت مخالف تحریک چلانے کے ساتھ کینڈا سے پاکستان آنے کے بعد ان کی دلی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور ان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ مختلف رائے پائے جاتے ہیں ۔ کوئی ان کو ایجنٹ تو کوئی ان کو دماغی مریض پکارتا ہے ۔ بعض لوگ مذہبی طور پر صرف اس اتفاق کرتے ہیں تو بعض بہت اختلاف بھی کرتے ہیں۔
گزشتہ بار زرداری کے خلاف انقلاب کے دعوے کے بعد کچھ ہی دنوں میں پیچھے مڑھ کر کینڈا چلے گئے اور عوام کو سردی میں اور خود بلٹ پروف اور گرم کنٹینرز میں رہنا نے بھی اس کے ہی کافی حامیوں کا مایوس کی ہے ۔ اس دوران انقلاب انقلاب اور پھر کینڈا کا ٹکٹ کٹوانے نے بھی اس کی سیاسی و اخلاقی ساخت کو نقصان پہنچایا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف پاکستان وفاقی تحقیقا تی ادارے نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، اس سلسلے میں ایف آئی اے نے الیکشن کمیشن سے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے اثا ثوں کی تفصیلات طلب کر لی ہے ۔اب آگے دیکھنا یہ ہے کہ اس تحقیق میں ڈاکٹر طاہر القادری کس حد تک مقابلہ کرتے ہیں۔
یاد دہے کہ گزشتہ روز حکمران جماعت کے لوگو ں نے کہا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے مرضی سے آ رہے ہیں مگر جائیں گے لیکن اپنی مرضی سے جا نہیں سکتے ہیں ۔ اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے خلاف پروپگنڈاکرنے کے ساتھ ساتھ ان پر بھی پروپگنڈا جاری رہے گا ۔ جیسے سابق صدر جنرل پرویز مشرف اپنے مرضی سے آئے تھے مگر اب اپنے مرضی سے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں ۔ کئی ماہ سے عدالتوں میں منت سماجت کرتے نظر آ رہے ہیں مگر مشرف اب کافی قید نظر آتے ہیں ممکن ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری پر حکومت کے ارکان ایسا گیم کھیلیں کے ڈاکٹر صاحب کافی مایوس ہونگے۔
جو کہ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ،مہنگائی اور بد امنی میں رہیں گے۔ایف آئی اے کا تحقیقات سے لگتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے گرد حکومت اپنا گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تماشا لگانے والوں کا بخار جلد اتر جائے گاوہ در بدر اور ہم سرخرو ہونگے ۔جلسے جلوس اور شور شرابا ہماری منزل کھوٹی نہیں کر سکتے، بحران ملک میں نہیں کچھ لوگوں کے زہنوں میں ہے کوئی انہونی ہونے والی نہیں ، آپریشن فیصلہ کن مرحلے میں جا رہا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر چلنے کا پروگرام کو آگے بڑھا رہے ہیں گزشتہ روز سابق قوم پرست رہنماء ممتاز علی بھٹو جو اب کافی عرصے سے مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی جو کہ ممتاز بھٹو نے اے پی سی میں شرکت کرنے سے معذ رت کر لی اور خود کو ن لیگ کا حصہ مانا ہے۔لیکن امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے یک نکاتی ایجنڈے پر اے پی سی میں شرکت کی دعوت اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے مشور کے بعد قبول کر لی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما ء سردار آصف احمد علی نے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
شیخ رشید بھی سیاسی میدان میں تنہا ہ مسافر ضرور ہیں مگر اپنی مقبولیت میں روز بروز اضافہ کر نے میں ماہر ہیں گزشتہ روز شیخ صاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ اس سال ضرور تبدیلی آئے گی ۔ ان کے بقول علامہ طاہر القادری کو بھونڈھے اندازمیں روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نواز شریف کے گھر جانے کے امکان زیادہ ہیں۔ شیخ کا اس بات پر زور ہے کہ قادری اور عمران خان مشترکہ طور پر آگے آئیں۔
عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری پاکستان میں کوئی خاص تبدیلی کے ہر گز اہل نہیں ہیں ہاں البتہ پاکستانی سیاسی میدان تھوڑی جگہ ضرور بنائیں گے ۔ جتنا عمران خان نے بنائی اس سے زیادہ ہر گز نہیں بنا سکیں گے۔