اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آسیہ بی بی کے مقدمے میں ’’ججوں نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا ہے‘‘۔
اُنھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ’’اکسانے والوں کے بہکاوے میں نہ آئیں‘‘؛ چونکہ ’’ملک دشمن ہی ایسی باتیں کر سکتے ہیں کہ جج واجب القتل ہیں یا آرمی چیف مسلمان نہیں‘‘۔
بدھ کی شام گئے ذرائع ابلاغ پر عوام سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ’’آپ کو اُن کی باتوں میں نہیں آنا‘‘۔
ساتھ ہی، اُنھوں نے اِس ’’چھوٹے سے طبقے‘‘ سے اپیل کی کہ ’’ریاست سے نہ ٹکرانا‘‘؛ چونکہ ’’ہم کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’’اپنی سیاست چمکانے اور ووٹ بینک بڑھانے والے ہی اس قسم کی فروعی باتیں کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ اور ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اگر ایسے عناصر جو اسلام کا نام لے کر لوگوں کو سڑکوں پر لاتے ہیں، تو عوام کی جان و مال کے تحفظ کی خاطر ریاست سخت کارروائی کرنے پر مجبور ہوگی۔ ہم کسی طور پر بد امنی برداشت نہیں کریں گے‘‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملک مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے، اور حکومت اس بات کی کوشاں ہے کہ عوام کو معاشی بحران سے باہر نکالا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، فوج مشکل صورت حال سے نبرد آزما ہے‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آسیہ بی بی کے مقدمے کا فیصلہ آنے پر کچھ عناصر نے ’’جو زبان استعمال کی ہے، اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘؛ اِن حضرات نے ’’لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی بات کی ہے، جو ہرگز قابل قبول نہیں‘‘۔
بقول اُن کے ’’اپنی سیاست چمکانے کے لیے اور اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے، ملک کو نقصان پہنچانے کی بات کی جا رہی ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی؛ ہم سڑکوں کو بند نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت کا تابع ہے۔
عمران خان نے یاد دلایا کہ اُن کی حکومت نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کو روکنے کا کام سنجیدگی سے کیا ہے۔ اس حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ ہالینڈ میں خاکے بنانے کے معاملے پر نہ صرف ہالینڈ کی حکومت سے بات کی گئی بلکہ اسلامی ملکوں کی تنظیم اور اقوام متحدہ میں پہلی بار یہ معاملہ اٹھایا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ انسانی حقوق سے متعلق یورپی یونین کی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ پیغبر اسلام کی شان میں گستاخی انسانی حقوق کا معاملہ نہیں ہے، جسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’’اگر کسی کو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پسند نہ آئے تو کیا اس بات کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی بات کی جائے؛ اور اس طرح، کونسا ملک یا حکومت چل سکتی ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’اس طرح کا انداز اپنانے سے صرف دشمنوں کو ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے‘‘۔
اِس سے قبل، بدھ ہی کے روز، چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے آسیہ بی بی کی اپیل پر محفوظ فیصلہ سنایا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس میاں مظہر عالم خیل بھی بینچ کا حصہ تھے۔ بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’’ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر آسیہ بی بی کی اپیل منظور کر لی گئی ہے؛ اور اگر وہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں تو انہیں فوری رہا کر دیا جائے‘‘۔
احتجاج کے پیشِ نظر اسلام آباد کے انتہائی حساس علاقے ’ریڈ زون‘ کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا، جب کہ سپریم کورٹ کی سکیورٹی رینجرز کے سپرد کردی گئی ہے۔
’تحریک لیبک‘ کے کارکنوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد انٹر چینج کو بھی بند کر دیا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق میڈیا کے نمائندوں پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔ اسلام آباد کے آب پارہ چوک پر بھی ’تحریکِ لیبک‘ کے کارکنوں نے راستے بند کر کے احتجاج کیا۔
ادھر کراچی اور لاہور میں بھی مختلف مقامات پر مذہبی جماعتوں کے کارکنوں نے ٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کر دی ہے۔