پشاور (جیوڈیسک) چترال کے 65 گھرانوں کی شہریت تقریباً 35 سالوں کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے بحال کر دی ہے۔ ان گھرانوں کو ریاست چترال کے سربراہ نے 66 سال پہلے ریاست بدر کر دیا تھا۔
یہ فیصلہ گذشتہ روز چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ مظہر عالم میاں خیل نے اس حوالے سے مقدمے کی سماعت کے بعد سنایا ہے۔ یہ درخواست میر سوات خان کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں محب اللہ تریچوی ایڈووکیٹ نے داخل کی تھی۔
محب اللہ تریچوی ایڈووکیٹ کے مطابق عدالت نے اب تک مختصر فیصلہ سنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چترال کے ان لوگوں کو 1951 میں ریاست بدر کر دیا گیا تھا جس کے بعد یہ لوگ افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔
مقامی طور پر ریاست چترال کے سربراہ کو میختر چترال کہا جاتا تھا اور یہ ریاست 1979 تک قائم رہی تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق ریاست بدری کے وقت ان 65 خاندانوں کی جائیداد بھی ضبط کر لی گئی تھی۔
افغانستان پر روس کے حملے کے وقت یہ خاندان بھی دیگر افغان مہاجرین کے ہمراہ واپس اپنے علاقے آگئے تھے اور یہاں یہ خاندان خوراک کی اشیا کے لیے مہاجرین کے راشن پر انحصار کرنے لگے تھے۔
محب اللہ تریچوی ایڈووکیٹ کے مطابق عدالت کو یہ بتایا گیا کہ ان گھرانوں کا 1951 سے پہلے پاکستان میں مقیم ہونے کا ریکارڈ موجود ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ان گھرانوں کا افغان مہاجرین کے ساتھ راشن اور دیگر مراعات حاصل کرنے پر نکتہ اعتراض اٹھایا گیا تھا۔
ان گھرانوں کا تعلق چترال کے علاقے گہیرت سے ہے اور یہ چترال اور دروش کے درمیان واقع ہے۔ محب اللہ ایڈووکیٹ کے مطابق ان متاثرہ افراد نے 1980 کی دہائی میں مقامی جرگوں اور عدالتوں سے رجوع کیا اور پھر سپریم کورٹ نے بھی ان کی اپیل خارج کر دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سال 2011 میں پھر جب افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے اقدامات شروع کیے گئے تو ان افراد کو شناختی کارڈ جاری نہیں کیے جا رہے تھے جس پر انھوں نے پاکستان کی شہریت بحال کرنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی۔
متاثرہ خاندانوں میں سے ایک کے ایک نوجوان شاکر نے بتایا کہ ان کے بزرگ جنھیں ریاست بدر کیا گیا تھا ان میں بیشتر فوت ہو چکے ہیں لیکن ان کے خاندان کے اس وقت کوئی دو سو سے زیادہ افراد اس علاقے گہیرت میں مقیم ہیں۔