کراچی (جیوڈیسک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جائیدادوں کی حقیقی قیمت کے لحاظ سے پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے لیے نئے ویلیو ایشن نظام کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بھرپور سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے باوجود صوبائی محصولات میں پراپرٹی ٹیکس کا تناسب انتہائی کم ہے۔
بینکاری ریگولیٹر نے صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ مجموعی صوبائی محاصل میں پراپرٹی ٹیکس کے گرتے ہوئے تناسب پر توجہ دی جائے اور پراپرٹی ٹیکس کے نظام اور قوانین کی ری اسٹرکچرنگ کرتے ہوئے جائیدادوں کی حقیقت سے کم ویلیو ظاہر کرنے کے رجحان کا تدارک کیا جائے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں جائیدادوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ اور سرگرمیاں تیز ہونے کے باوجود صوبائی ٹیکسوں میں پراپرٹی ٹیکسوں کا تناسب بڑھنے کے بجائے کم ہوتا جا رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2009سے 2016-17کے دوران پنجاب کے مجموعی صوبائی ٹیکسوں میں پراپرٹی ٹیکسوں کا تناسب 18.7فیصد سے کم ہو کر 7.1 فیصد کی سطح پر آچکا ہے، اسی طرح سندھ کے مجموعی صوبائی ٹیکسوں میں پراپرٹی ٹیکس کا تناسب 3.9فیصد سے کم ہوکر 3.2فیصد رہ گیا، کے پی کے میں پراپرٹی ٹیکسوںکا تناسب 1.9فیصد تھا جو 7سال کے دوران محض 2فیصد تک ہی بڑھ سکا، بلوچستان میں یہ تناسب 3.8فیصد سے گھٹ کر1.9فیصد رہ گیا۔
اسٹیٹ بینک نے جائیدادوں کی ویلیو ایشن کے نئے نظام کو ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے درست سمت میں اہم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس نظام سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے پراپرٹی ٹیکس وصولیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خریداروں پر عائد ہونے والے کیپٹل گین ٹیکس کے حصول کے لیے جائیداد کی ملکیت کی حد میں اضافے کے فیصلے کو بھی خوش آئند قرار دیا اور کہاکہ اس اقدام سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سٹے بازی کی روک تھام میں مدد ملے گی اور ریونیو میں اضافہ ہو گا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق وفاقی حکومت کے اس فیصلے سے صوبوں کو فائدہ پہنچے گا اور جائیدادوں کی قیمت بڑھنے سے صوبوں کو پراپرٹی ٹیکس کی مد میں ملنے والے محصولات میں نمایاں اضافہ ہو گا۔