ریاست کی بنیادی خاصیت

pakistan

pakistan

ریاست کی بنیادی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے معاشرے کے ہر رکن پر اختیارحاصل ہوتا ہے ۔ ریاست میں رہنے والے تمام افراد ریاستی فیصلوں کے پابند ہوتے ہیں اور ریاست ہی ایسے اصول و معیارات عمل قائم کرسکتی ہے جن کی پابندی ریاست کے اندر رہنے والے تمام افراد پر بلا استثناء لازم قرارپاتی ہے ۔ریاستی نظا م فی الحقیقت ریاستی کل پرزوں اداروں اور محکموں کا ایک ایسا نظام ہے جو ریاستی قوت و اقتدار کو عملی جامع پہناتا ہے۔

ان میں قانون ساز ادارے ( پارلیمان ) حکومتی انتظامی ادارے (وزارتیں ) بلدیاتی ادارے عدالتیں پولیس اور فوج شامل ہیں ۔ ریاستی بازوؤں اور پنجوں کا یہ نظام ریاستی قوت و اقتدار کو روبہ حقیقت کرتا ہے اور جمہوریت و آمریت میں یہ نظام فی الحقیقت جبر اور دباؤ کے نظام کی ایک منظم صورت ہے جبکہ اشتراکیت یعنی فلاحی نظام میں یہی نظام قومی معاشی ترقی کی رہنمائی کرنے اور معیشت کو منظم و مربوط طریقے سے ترقی کی جانب رواں رکھنے کیلئے ایک بہترین ضابطہ ہے۔
اشتراکی(فلاحی) نظام خاندان مرتبے اور عہدے سے بالاتر ہوکر سب کیلئے مساوات کا صرف ایک اصول متعین کرتا ہے اور وہ ہے ہر شخص سے اس کی اہلیت کے مطابق کام اور ہر شخص کو اس کے کام کے مطابق حصہ۔ اس نظام کے تحت نہ تو جاگیرداریت کا خاتمہ کرنا ہوگا اور نہ ہی سرمایہ داریت سے نجات کی ضرورت پیش آئے گی بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد تک خوشحالی کے ثمرات پہنچاکر ان کے احساس محرومی اور لسانیت و تعصبات کاخاتمہ اور حب الوطنی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کی اہلیت کو وطن عزیز کی ترقی کیلئے استعمال کیا جاسکے گا۔

اشتراکی (فلاحی)نظام کے قیام کیلئے پاکستان کے موجودہ استحصالی نظام کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے چونکہ دستور پاکستان بھی استحصالی عناصر نے ہی بنایا ہے اور اس میں عوام سے زیادہ خواص کے مفادات کی نگہبانی کو قانونی شکل دی گئی ہے اسلئے دستور پاکستان کودورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور اس دستور میں عوام اور عوام کے حقوق کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کی اولین ترجیح مساوات کو بنیاد و اسا س قرار دینے کی ضرورت ہے۔

Political parties

Political parties

بصورت دیگر ہم کئی دہائیوں سے چہروں کی تبدیلیوں کے ذریعے عوام کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کو اقتدار منتقل کرتے رہے ہیں مگر نتائج ہمیشہ بربادی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے کیونکہ مسائل کا حل چہروں کی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی میں مضمر ہے اور جب تک نظام تبدیل نہیں ہوگا عوام کو نہ تو حقیقی آزادی مل سکے گی نہ حقیقی خوشحالی اور نہ ہی حق و انصاف اس لئے پاکستان کے معاشرے کو اسلامی اصول کے مطابق عدل انصاف مساوات محنت اور ثمر کا ترقی یافتہ و فلاحی معاشرہ بنانے کیلئے پاکستان میںفلاحی نظام کا قیام اور آئین کی ازسرِ نو تشکیل کی ضرورت ہے۔

معاشرے کے ہر کمزور سے کمزور فرد تک اس کا حق پہنچانے اور اسے ریاست کا ذمہ دار شہری بنانے کیلئے ضروری ہے کہ قومی ضابطے کو اشتراکی یعنی فلاحی نظام کے تحت مرتب کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آجر و اجیر کے درمیان معاشی خوشحالی کا ایک ایسا تعلق ہو جس کیلئے آجر ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرے اور اجیر بھرپور محنت کرے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہاری کسان دہقان مزدور مل ملازم اور خدمات کے شعبے سے وابستہ ہر فرد کو اس کے شعبہ میں شراکت فراہم کردی جائے یعنی آئین پاکستان معاشرے کے ہر فرد کو یہ تحفظ فراہم کرے کہ وہ جی جان سے محنت کرے اور اس کی محنت سے پیدا ہونے والی پیداوار کے نفع میں اسے مکمل شراکت فراہم کی جائے گی ۔

یعنی قانون سازی کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ذرعی پیداوار ہو یاصنعتی بنکوں کا منافع ہو یا تجارتی کمپنیوں کا ‘ خدمات کے ادارے ہوں یا تحفظ پر مامور شعبے ان کے تمام اخراجات اور تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد بچنے والے خالص نفع کو تین حصوں میں اس طرح سے تقسیم کیا جائے کہ 40 فیصد سرمایہ دار یا جاگیردار کو 30 فیصد محنت کش کو اور 30 فیصد سرکار کو بطور ٹیکس حاصل ہو جبکہ دیگر ہمہ اقسام کے ٹیکسز کا خاتمہ کرکے ادارے کے خالص منافع پر 30 فیصد ٹیکس کے ذریعے ٹیکس دہندگان کو دیانتداری سے ٹیکس کی ادائیگی کی جانب راغب کیا جاسکتاہے۔

جبکہ آجر و اجیر کے درمیان منافع کی تقسیم کے فارمولے سے آجر کیلئے ٹیکس چرانا یا کھاتوں میں ردوبدل کے زریعے نفع کو نقصان میں تبدیل کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا اور اداروں سے وابستہ افراد کو نفع میں شریک کرکے گھوسٹ ملازمین اور کام چور افراد سے بھی نجات ممکن ہوسکے گی۔ پاکستان میں استحصالی طبقے نے ایک خاص سازش کے تحت عوام کو صوبائیت لسانیت مسلک اور مختلف گروہ بندیوں میں بانٹا تاکہ وہ کبھی استحصالی نظام کے خلاف متحد نہ ہو سکیں اور یہ استحصالی نظام عوام کا خون چوسنے والے عناصر کو زیادہ سے زیادہ اختیارواقتدار فراہم کرتا رہے تاکہ وہ اس ملک کے وسائل کو اپنی خوشحالی کیلئے ہمیشہ استعمال کرتے رہیں۔

Exploitative System

Exploitative System

مگر اب جبکہ عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہورہا ہے اور وہ اپنے حقوق کے حصول و استحصال سے نجات کیلئے وحدت کی ضرورت کو محسوس کررہے ہیں تو استحصالی ٹولے نے ایک بار پھر عوام کو انتشار کا شکار کرنے کیلئے صوبائیت کے نام پر عوام کو لڑانا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ایک بار پھر وطن عزیز میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے گوکہ وطن عزیز کے تمام علاقوں میں یکساں ترقی اور عوام کے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور بروقت و سستا انصاف مہیا کرنے کیلئے چھوٹے انتظامی یونٹوں کا قیام انتہائی ضروری ہے۔

مگر موجودہ انتظامی نظام کے تحت مزید صوبوں کا قیام محض تعصب و لسانیت کے فروغ کا ذریعہ ہی ثابت ہوگا اس سے نہ تو عوام کے بنیادی مسائل کا حل ممکن ہوگا اور نہ ہی پاکستان کے ہر علاقے کی عوام کو ترقی کی یکساں رفتار سے گزارا جاسکے گا ۔ اسلئے مزید صوبوں کے قیام کی بجائے پاکستان کے نظام میں اس طرح سے تبدیلیاں لائی جائیں کہ چھوٹے انتظامی یونٹس کا قیام بھی ممکن ہو اور ان انتظامی یونٹس کے تحت عوام پورے اعتماد و یقین اور احساس تحفظ کے ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار فعال انداز سے ادا کرسکیں جس کا واحد ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ۔ ”خود مختار ڈویژنل کونسلوں کا قیام ” یعنی” مقامی خودمختاری ”کا نفاذ ۔

پاکستان کو مسائل و مصائب سے نکالنے اور مستحکم و ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ صوبائیت ‘ لسانیت اور ہر قسم کے مسلکی و مذہبی تعصب و منافرت کا خاتمہ کرکے قومی وحدت کو فروغ دیا جائے جس کیلئے وطن عزیز میں ایک ایسااسلامی معاشرے کا قیام ناگزیر ہے جس میں عورت و مرد اور اقلیتوں سمیت معاشرے کے ہر فرد کو یکساں حقوق حاصل ہوں اور خاتم المرسلین کے خطبہ حجة الوداع کے مطابق اس معاشرے میں کسی کو بھی کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہو بلکہ عدل و انصاف کے ترازو میں سب کا وزن یکساں ہو اور مساوات کے اس معاشرے میں ہر فرد کو سرکاری سطح پر تعلیم علاج روزگار اور رہائش کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس کی محنت و صلاحیت کے مطابق بہترین معاوضے کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

کسی بھی فرد کو کسی بھی دوسرے فردکے استحصال کا کوئی حق حاصل نہ ہو جبکہ تمام قومی معاملات قوم کی رائے کی روشنی میں ان کی اُمنگوں کے مطابق طے کئے جائیں تاکہ پاکستان کا ہر فرد پاکستان سے محبت اور اس کی ترقی و استحکام کیلئے بھرپور محنت کرے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب عوام کو براہ راست اختیارو اقتدار میں شراکت اور تمام امور میں رائے دہی کا حق فراہم کیا جائے۔

تاکہ پاکستان کا ہر شہری یہ محسوس کرسکے کہ اس ملک کے نظام میں اس کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے مگر اس کیلئے ”مقامی خود مختاری ” کا نفاذ ناگزیر ہے جس کے تحت ڈویژنوں کو خود مختاری فراہم کرکے عوام کو نہ صرف بنیادی سہولیات ان کے گھر کی دہلیز پر فراہم کرکے مسائل سے پاک ایک ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے بلکہ مفت علاج مفت تعلیم لازمی روزگار اور سرکاری سطح پر رہائش کی فراہمی کے ذریعے غریب عوام کو ریلیف فراہم کرکے مہنگائی غربت بیروزگاری جیسے مسائل کا حل بھی نکالا جاسکتا ہے۔

اوربدامنی دہشت گردی و جرائم کے عفریت پر بھی قابو پاکر ایک ایسے پر امن معاشرہ بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے جہاں صنعتوں کا پہیہ پوری تیز رفتاری سے چلے اور صنعتی و ذرعی پیداوار کے ذریعے وطن عزیز میں معاشی خوشحالی کا دور دورہ ہو جبکہ بیرونی سرمائے کو قومی پالیسی کا تابع بناکرنہ صرف پاکستان کے آزاد تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے بیرونی سرمائے سے صنعت و ذراعت کو فروغ دیا جاسکتا ہے بلکہ ”ایکسپورٹ اورینٹڈ پالیسی” اپناکر کثیر تعداد میں زرِ مبادلہ کے حصول کے ذریعے پاکستان سے غربت کا مکمل خاتمہ بھی کیاجاسکتا ہے ۔

مقامی خود مختاری ” کے نفاذ کے ذریعے عوام کوطبقاتی اور وی آئی پی کلچر سے نجات کے ساتھ بر وقت سستے اور سہل انصاف کی فراہمی کی مکمل ضانت حاصل بھی حاصل ہوگی اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل بھی ممکن ہوگی جس
کے ذریعے پاکستان کو دنیا میں نمایاں مقام دلانے اور دفاع پر بھرپورتوجہ دے کر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا جاسکے گا جبکہ ”مقامی خود مختاری ” کے تحت ڈویژنل کونسلوں صوبوں اور مرکز کے مابین اختیارات و فرائض کی آئینی تقسیم کے ذریعے ڈویژنوں کا صوبوں سے اور صوبوں کا مرکز سے ایک ایسا مضبوط ربط بھی پیدا کرتا ہے جس سے نہ صرف مرکز مضبوط ہوگا بلکہ صوبے بھی خوشحال ہوں گے اور ڈویژنیں بھی بااختیار ہوکر اپنے مسائل کے حل کیلئے صوبے یا مرکز کی محتاج نہیں ہوں گی۔

IMRAN-CHANGEZI

IMRAN-CHANGEZI

تحریر : عمران چنگیزی
imrankhanchangezi@gmail.com