تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری افواج و عدلیہ کے علاوہ تقریباً سبھی ریاستی ادارے اپنے فرائضٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ سے غافل ہو چکے ہیں خلفائے راشدین کے دور میں تو ریاست ماں کے جیسی ہی تھی۔ہمارے ہاں تو رفاہی ادارے ریاستی اداروں کی کچھ کمی پوری کر رہے ہیں ایدھی وغیرہ جیسے ادارے محروموں، مسکینوں ،زخمیوں اور لاوارثوں کو سنبھالنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں نوزائیدہ ناجائز بچوں کے لیے بھی ان کا اعلان ہے کہ لوگ انہیں گندگی کے ڈھیروں پر پھینکنے کی بجائے ان کے ہاں جمع کروادیں جہاں وہ ساری عمر بھی گزار سکتے ہیں یا پھر اولاد نہ رکھنے والے افراد اس بچہ کو گود میں لے سکتے ہیں رشوت ستانی ہیرا پھیری سرکاری خزانوں سے لوٹ مار جیسے مکروہ کردار کی وجہ سے ہمارے مقتدر اداروں کا کردار ریاست کے اندر ماں کے جیسا قطعاً نہیں رہا 2014 میں ضلع قصور کے اندر 400 سے زائد بچے بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کی ننگی ویڈیو فلمیں بنانے اور انہیں مستقلاً بااثر افراد کے داد عیش دینے اور راتوں کو رنگین کرنے کے گھنائونے عمل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا سب کچھ میڈیا نے ہائی لائیٹ کیا اخبارات ان واقعات سے بھر گئے۔پرچے درج ہوئے ملک بھر میں چیخ و پکار مچ گئی مگر گرفتاریوں اور پھر سزائوں سے بچانے والے بھی اسی ضلع کے منتخب بااثر اور کرپٹ افراد کے ٹولے تھے۔
پھر سابقہ سال اور امسال کے دوران10معصوم کمسن بچیاں اور1بچہ بھی درندوں کے بھینٹ چڑھ گئے ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہے مگر حکومتی مشینری بااثر افراد اور منتخب ارکا ن صرف مجرموں کے تحفظ کا کردار ادا کرتے رہے چند دن قبل جب آٹھ سالہ بچی زینب کی لاش گندگی کے ڈھیر پر ملی تو قصور میں قیامت ٹوٹ پڑی اور جلسے جلوسوں میں بھی دو افراد ریاستی پولیس کی دہشت گردی سے شہید ہوگئے ملک کے دوسرے علاقوں سے بھی نوجوان اور کم سن بچیوں کو اغوا کرکے خونخوار درندوں جیسی صفت کے افراد زیادتیاں کرکے پھر قتل کے بعد ان کی لاشوں کو چوکوں و گندگی کے ڈھیروں پر پھینک ڈالنے جیسے مزید واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔رسول اکرمۖ کے دور میں ایک گونگی بچی کا سر کچل ڈالا گیا وہ آپۖ کے پاس لائی گئی چونکہ وہ بولنے سے قاصر تھی اس لیے آپۖ خود مشتبہ افراد کے نام لیتے رہے جب ایک یہودی کا نام لیا گیا تو بچی نے ہاں میں سر ہلایا آپۖ نے اس یہودی مجرم کو گرفتار کروا کر سر عام اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل ڈالنے کا حکم فرمایا۔
اس طرح وہ اس دور میں عبرت کا نشان بن گیا اور بعد ازاں کو ئی ایسا واقعہ رونما نہ ہوا پاکستان بنتے وقت پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہکے نعرے گونجتے رہے مگر70سال بعد بھی اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہ ہو سکا ہے ہم رسول اکرم ۖ کے طور طریقوں کو بھلا بیٹھے ہیںاور ذلیل و خوار ہورہے ہیں لاہور کے باغبانپورہ تھانہ کی حدود میںپپو نامی بچہ اغوا ہوا تھا اس سے زیادتی کرنے کے بعد اسے ریلوے تالاب میں پھینک ڈالا گیا گو ضیاء الحق کا دور تھا مگر قاتل گرفتار ہوئے کھلی جگہ پر صبح سے شام تک پھانسی پر لٹکتے رہے دور دور سے افراد نے پہنچ کر ان بد کرداروں کا یہ حشر دیکھا کہ گرفتاری کے تین دن بعد ہی پھانسی گھاٹ نصب کر ڈالا گیا تھا اس کے بعد کوئی معصوم کم عمر بچہ کبھی اغوا نہیں ہوا جب تک ہم معاشرہ سے بے حیائی فحاشی بلیو پرنٹ فلمیں اور مخلوط محافل میں ڈانس شراب ختم نہیں کر ڈالتے کہ یہ سارے اعمال لوگوں کو غلیظ افعال پر ابھارتے ہیں جس سے زنا و شہوت جیسی خواہشات جنم لیتی ہیں۔
اسلامی اقدار کا حامل معاشرہ قائم کرنا ہوگا وگرنہ زینب بچی جیسے واقعات مسلسل جاری رہیں گے نیز ایسے درندہ صفت افراد کو بھی کھلی جگہوں پر لٹکانا ہوگا جو کہ انگریز کے دیے گئے قوانین کے تحت نہیں بلکہ اسلامی قوانین کے نفاذ سے ہی ممکن ہوسکے گا پاکستان کے پچانوے فیصد مسلمانوں نے اگر اپنا وطیرہ تبدیل نہ کیا اور موجودہ قوانین کو اسلامی شرعی قوانین سے تبدیل نہ کیا تو پھر غنڈہ عناصر اسی طرح دندناتے پھرتے رہیں گے کہ ہر منتخب وڈیرے جاگیردار سرمایہ دار نے ایسے افراد پال رکھے ہوتے ہیں جو کہ انہیں راتوں کی عیاشیوں کے لیے “ایسی سپلائی لائن”بحال رکھتے ہیں پھر وہی انہیں تحفظ دیتے رہتے ہیں سابق ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ایوان صدر ایسی غلیظ ترین سرگرمیوں کا گڑھ بنا ہوا تھا وہاں راتیں جاگتی تھیں اور شراب و خمر و ڈانس کی محفلوں کا انعقاد ہوتا تھا نشہ کی حالت میں انسانی شہوت کا بڑھ جانا قدرتی امر ہے اس لیے ایسی محافل میں رات گئے کیا ہوتا ہے وہ سبھی پر واضح ہے اپنی بہو بیٹیوں کے تحفظ کے لیے ہمیں نبی اکرم ۖ کی تعلیمات کو اپنانا ہوگا تاکہ مجرم فوری سزائیں پا کر نشان عبرت بن سکیں۔
مخلوط نظام تعلیم کا فوراً خاتمہ کرکے بنیادی دینی تعلیمات کو بھی نصاب کا حصہ بنانا ہو گا ایک فرد کا قتل پورے معاشرے کا قتل ہے تو پھر بھی قاتل دندناتے پھریں کہ قاتلوں کو مقتدر قوتیں تحفظ فراہم کرتی ہیں اسی وجہ سے بد کردار درندے حوصلہ پاکر مزید وارداتیں کرنے سے نہیں چوکتے۔ امن عامہ قائم کرنا اور عوام کے جان و مال کا تحفظ حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ماڈل ٹائون پر14افراد کے پولیس کی طرف سے بہیمانہ قتل اور تقریباً100افراد کو گولیاں مارڈالنے کے ظالمانہ عمل پر فوراً ایکشن لے کر قاتل جہنم واصل کر دیے جاتے تو منتخب حکمرانوں کو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے الٹا قاتل پولیس والوں کو ترقیاں دینا مقتولوں کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔میڈیا سے بھی نیم عریاں خواتین کی تصاویراور پھر انہیں اشتہاری مہم کے لیے بھی استعمال کرنے کی قطعاً ضرورت نہ ہے کالجوں سکولوں میں بچیوں کے ڈانس اور گانے بجانے کی محافل ،میوذیکل کنسرٹس بھی بند ہو جائیں تاکہ ابھرتی جوانیوں ہی میں سفلی جذبات منتقل نہ ہو ں پھر اسلامی طور طریقوں کے مطابق بالغ ہوتے ہی نوجوان بچے بچیوں کی شادیاں کر ڈالنے سے بھی زنا جیسی لعنت سے نجات مل سکے گی ہمیں زینب کی طرح کی بچیوں پر جنسی تشدداور ان کے بہیمانہ قتل کو روکنے کے لیے اسلامی طور طریقے اختیار کرنے ہوں گے مکمل اسلامی نظام نافذ کرنا ہوگا جس کا ہم نے قیام پاکستان پر وعدہ بھی کیا تھا۔خداوندی احکامات کی مکمل پیروی کی جائے تو ایسے واقعات کا انعقاد نہیں ہو گا وگرنہ ہمارا رونا پیٹنا احتجاج کرنا کسی کام نہ آسکیں گے! جلد ایسا نہ کیا گیا تو بابا پھر یہ سب کہانیاں ہیں۔