اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام میں ایک طالب علم کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو ریاست کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔
جمعرات کو یونیورسٹی میں طلبا کے مشتعل ہجوم نے مشال خان نامی نوجوان طالب علم کو بے رحمانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
واقعے کے تقریباً 48 گھنٹوں بعد ہفتہ کو وزیراعظم نے ایک بیان اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہجوم کی طرف سے بے حسی پر مبنی اس واقعے پر انھیں شدید دکھ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم اس جرم کی مذمت اور معاشرے میں برداشت اور قانون کی بالادستی کے فروغ کے لیے متحد ہو۔
بیان میں وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ “کوئی باپ اپنے بیٹے کو اس خوف سے تعلیم سے دور نہ کرے کہ وہ (درس گاہ سے) واپس تابوت میں آئے گا۔”
ان کے بقول پولیس کو اس واقعے کے ذمہ داران کو گرفتار کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
دریں اثناء پاکستان میں اقوام متحدہ کے رابطہ کار نیئل بونی نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ہفتہ کو ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اس لحاظ سے اور ابھی افسردہ کر دینے والا ہے کہ یہ ایک درسگاہ میں مقتول طالب کے ساتھی طلبا کی طرف سے کیا گیا۔
انھوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ واقعے کے ذمہ داروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کی طرف سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا قابل قبول نہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے جس کی قانون کے مطابق سزا موت ہے۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس الزام کا سامنا کرنے والوں کو لوگ قانون تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں کی طرف سے توہین مذہب کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس پر نظر ثانی کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
ایوان بالا “سینیٹ” کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رکن ستارہ ایاز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہجوم کی طرف سے کسی شخص کو کسی بھی الزام میں موت کے گھاٹ اتارنے جیسے واقعات کے تدارک کے لیے ریاست اور معاشرے کو مل کر اپنی اپنی جگہ اقدام کرنا ہوں گے۔
خیبرپختونخواہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر کی جانے والی تفتیش میں ایسے شواہد نہیں ملے کہ مشال خان توہین مذہب کا مرتکب ہوا۔ صوبائی حکومت واقعے کی عدالتی تحقیقات کا اعلان بھی کر چکی ہے۔