انسان اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے آنے والے دور یعنی حال و مستقبل میں پچھلی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر کوئی قوم اپنے ماضی سے سبق حاصل نہیں کرسکتی ہے تووہ اپنے مستقبل میں کوئی مقام و مرتبہ حاصل نہیں کر پاتی ہے زمانہ کوئی بھی ہو، لیکن ماضی کی تاریخ سے ہی قوم و نسل کو ترقی کی راہ پر گا مزرکر نا آسان ہوتا ہے۔ اگر ہم ریاست ِحیدرآباد دکن کی تاریخ بھولنا چاہیں تو بھی بھول نہیں سکتے کیونکہ اُس دور میں ہر مذہب کی تہذیب عروج پر تھی اور اِس دور میں لوگ اپنی مذہبی تہذیب کوتک نہیں جانتے ہیں اُس دور میں ہر شعبہ جات کے ملازموں کو اپنے شعبہ سے ملک وقوم وملت کی ترقی مقصود ہوتیں تھیں،لیکن اِس دور میںہرکوئی اپنی ذات کی ترقی کو اپنا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ اُس دور میںہر مذہب امن وامان سے قائم تھا ۔اِس دور میںکچھ مفادپرست مذہب وقوم کے نام پر فسادات کئے جاتے ہیں۔اِس لئے ہر ایک کو اپنے ماضی پر نظر کر تے ہوئے اُس سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ہم اپنے موضوع پر آنے سے قبل حیدرآباد کی تاریخ پر مختصر نظر ڈالتے ہیں۔
ِ سلاطینِ آصفیہ:۔مغلیہ حکومت کی جانب سے پورے دکن کی صوبہ داری مختلف اصحاب کو یکے بعد دیگرے ملتی رہی لیکن کسی نے بھی اپنی باضابطہ اور باقاعدہ حکومت کا نقش قائم نہیں کیا ۔ بالآخر11اکتوبر 1724عیسوی کو میر قمر الدین خاںنظام الملک آصف جاہ نے شکر کہرہ کی لڑائی میں فتح یاب ہوکر سلطنت آصفیہ کی بنیاد ڈالی۔ میر قمر الدین خاںنظام الملک آصف جاہ اول ترکستان کے معززخاندان کے سپوت تھے آپ کے دادا خواجہ عابد نے اورنگ زیب سے اپنی شجاعت کے انعام میں خلیج خان کا خطاب حاصل کیا تھا۔ میر قمر الدین خاںنظام الملک آصف جاہ اول کا 1748عیسوی میں انتقال کے وقت سلطنت کے حدود بڑے وسیع تھے صوبہ حیدرآباد،صوبہ اورنگ آباد، صوبہ خاندیس ،صوبہ برار، صوبہ محمد آبادبیدر،صوبہ بیجاپور پر مشتمل تھا۔
میر قمر الدین خاںنظام الملک آصف جاہ اول کے انتقال کے وقت پانچ لڑکے تھے غازی الدین علی خاں،ناصر جنگ، صلابت جنگ،میرنظام علی خاں ، بسالت جنگ انتقال کے بعد ناصر جنگ نے جانشینی کا علان کیا ،ناصرجنگ کا انتقال 1750عیسوی میں ہوا، ان کے بعد صلابت جنگ مسند نشین ہوئے جنھوںنے تقریبا بارہ سال تک حکومت کی۔1762 ء میں میر نظام علی خاں تخت نشین ہوئے،بیالیس سال حکومت کی اور 1803ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بعد سکندرجاہ آصف جاہ سوم مسند نشین ہوئے اور 1829عیسوی میں ان کا بھی انتقال ہوگیا، پھر ان کے بعد ناصر الدولہ آصف جاہ چہارم مسند نشین ہوئے چوبیس سال بعد 1857عیسوی میں انکا انتقال ہوا۔ افضل الدولہ آصف جاہ پنجم مسند نشین ہوکر26مارچ/ 1869عیسوی میں انتقال کئے، افضل الدولہ کے انتقال کے وقت میر محبوب علی خاں تین سال کے تھے لیکن تخت وتاج کے وارث رہے اور سن شعور کو پہنچنے پر5فبروی/ 1884عیسوی میں مسند نشین ہوئے/29ا گسٹ/ 1911عیسوی میں انتقال تک حکومت پر فائز رہے۔ (از تزکیہ آصفیہ، تاریخ گلزار آصفیہ ) ان کے بعد آصفیہ سلطنت کے آخری تاجدارنواب میر عثمان علی خاں نے 1911عیسوی میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور سقوط حیدرآباد 18ستمبر 1948عیسوی تک بادشاہت پر قائم رہے۔ نواب میر عثمان علی خاںکے دور حکمرانی کی تاریخ درخشاں ، تابناک اور افسوسناک بھی ہے۔
نواب میر عثمان علی خاںکے دورمیںریاست ِ حیدرآباد میں عالیشان جامعات ،دوخانے ،تالاب بنائے گئے اورمکہ معظمہ ، مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی نواب میر عثمان علی خاں نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لئے ” مدینہ بلڈنگ ” کے نام سے شاندار عمارتیں جو کہ آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لئے وقف ہیں، جن کے کرایے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لئے رباط کے نام سے نواب میر عثمان علی خاں نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوادی تھیں غرض وہ کونسی جہت ہے جس میں ترقی نہیں ہوئی ۔ 1923عیسوی میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچیکہ دنیامیں اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب’ افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوشحالی وشان و شوکت کے لحاظ سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقوامی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے ۔لارڈ ماؤنٹ بیاٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب انگلستان کا معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حدتک سہارا دیا۔بلکہ کچھ خود غرض ،ذاتی مفاد کو پیش ِ نظر رکھنے والے بعض غداروںنے حکومت کو نقصان پہونچایا،انگریزحکومت نے یاروفادار کی وفاداری کی خدمات کی قدر نہیں کی اپنی سیاست سے حکومت آصفیہ کے بقا کیلئے کچھ نہیں کیا۔1947عیسوی میں ہندستان کی تقسیم کے بعد حیدرآباد کی رعایا کے ذہن بھی تقسیم ہوگئے،ریاست حیدرآباد کی خصوصیت تھی کہ یہ ہمیشہ امن و آشتی کا علمبردار ‘ ہندو مسلم یکجہتی کی مثال اور علم و ادب نوازی کی ایک ایسی مثال تھا، جس کو دنیا کے علماء و دانشور مفکرین و مورخین نے آکر اپنی خدمات سے مزید چار چاند لگائے تھے۔
میر عثمان علی خاں بہادر آصفجاہ سابع کی حکمرانی 29/اگست 1911 عیسوی سے لے کر 17 /ستمبر 1948 عیسوی تک قائم رہی یعنی انہوں نے 37سال تک حکمرانی کی اور عوام کی خدمت انجام دی ان کا یہ دور مملکت آصفیہ کاسنہری اور بہترین دور تھا ان کے دور میں اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا حکومت کے کاروبار اردو زبان ہی میں انجام پاتے تھے ۔ ان کا انتقال 24/فروری 1967عیسوی میں حیدرآباد میں ہوا۔
State Deccan
1947عیسوی میں تقسیم ہند کے وقت یہ تمام ہندوستانی ریاستوں میں سب سے بڑی اور امیر ترین ریاست تھی۔یہ اپنی فوج،ائر لائن،نظام ،مواصلات،ریلوے ، ڈاک نظام،کرنسی اور ریڈیو سٹیشن رکھتی تھی۔ نظام علوم وفنون،موسیقی اور فن تعمیر کے دلدادہ تھے ۔انھوں نے کبھی ہندوئوں اور مسلمانوں کے مابین امتیاز نہیں برتا۔ عوام سے ان کا برتائو مشفقانہ تھا۔سقوطِ حیدرآباد کے چند اسباب ٭ ہندوستان کے نقشے پر حیدرآباد کی ریاست ٹھیک قلب کے مقام پر تھی جس کے چاروں طرف جمہوری آزاد ہندوستان کی سرحدیں تھیں ۔ ٭ عوام کے ذہنوں میں اس وقت ایک جمہوری انقلابی تصور موجودتھا جس کے نتیجے میں عوام کی ایک بڑی تعداد کا چاہے وہ مسلمان ہوں کہ ہندو، ان کے ذہنوں میں ایک بادشاہ کے زیرِ حکومت ساری عمر رہنا ممکن نہیں تھا۔ ٭ کسی ریاست کی بقا کے لئے اس کے بین الاقوامی رابطے صرف بندر گاہوں یا ایر پورٹس کے ذریعہ ہوتے ہیں جو کہ ریاست حیدرآباد کیلئے موجود نہیں تھے اور نہ دفاعی ساز و سامان تھے۔
ان وجوہات کی بنا حیدرآباد کا ہندوستان میں شامل ہو جانا یا شامل کر لیا جانا ایک لازمی امر تھا جو بالاخر ہونا تھا لیکن بد قسمتی سے جن حالات میں سقوطِ حیدرآباد ہوا وہ نہ صرف مسلمانوں کی بد نصیبی کی تاریخ کا ایک المیہ ہے بلکہ خود ہندوستان کی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے۔قتل و غارت گیری یا حکمتِ عملی؟ ٹائمس آف انڈیا نے /25نومبر 2012عیسوی میں سوامی ناتھن ایّر کا ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا کہ مودی کے دور میں گجرات کے فسادات میں مسلمانوں کا قتل اور 1984عیسوی میں راجیو گاندھی پر تین ہزار سکھوں کے قتل عام کا الزام اعائد ہوگا، مگر مجھے فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیق پر تعجب ہوا کہ سب سے بڑا کشت و خون نہ تو مودی کے ہاتھوں ہوا نہ تو راجیو گاندھی کے بلکہ اس کا سہرا پنڈت نہرو کے سر ہے انہوں نے جب حیدرآباد پر پر قبضہ کیا اس وقت پچاس ہزار سے دو لاکھ تک مسلمان موت کے گھاٹ اترے ۔حکومت حیدرآباد اور حکومت ہند کے درمیان ایک باعزت سمجھوتہ کیلے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہا۔ حیدرآبادی وفد دہلی میں کی گئی بحث سے حضور نظام کو آگاہ کرتا رہا لیکن اس عرصہ میں کوئی معاہدہ طے نہ ہو سکا اور ہند کے وزیر داخلہ و نائب وزیراعظم سردار پٹیل نے دھمکی دی کہ مذا کرات کا سلسلہ طویل عرصے تک جاری نہیں رکھا جا سکتا ہے۔
19/نومبر 1947ء کی صبح، ہند پارلیمنٹ میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بتایا کہ حیدرآباد ہی ایک ایسی ریاست ہے جس کے ساتھ فی الحال حکومت میں شمولیت کے مسئلہ پر گفت و شنید جاری ہے جس کی نوعیت بتانا مفاد عامہ کے خلاف ہے۔
سردار ولبھ بھائی پٹیل کی کرُ ب بیانی سے بھی اس بات کا وُقوُف ہوتا ہے۔٭ 17/جنوری 1948 عیسوی کو ، ممبئی میں 50 ہزار سے زائد اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر داخلہ ہند سردار ولبھ بھائی پٹیل نے کہا : ”گاندھی جی عدم تشدد اور کچھ نہ کر و کی تلقین کرتے ہیں، مگر ہم نے حکومت سنبھالی ہے، اور ہمارے ملک میں گڑبڑ ہوتی ہو یاملک کے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے اور ہم خاموش نہیں رہ سکتے ”۔ بعض لوگ مجھ سے کہتے ہیں حیدرآباد سے سمجھوتہ کر کے حکومت ہند نے بڑی غلطی کی ہے۔حیدرآباد سے سمجھوتہ کرنے میں ہمیں دوباتوں کا خیال رکھنا پڑا۔ایک تو یہ کہ حیدرآباد بہت بڑی ریاست ہے دوسرے یہ کہ وہاں کا حکمراں ایک مسلمان ہے اس لئے حیدرآباد سے معاملہ کرنے میں مہلت ہی مصلحت تھی۔ مجھے توقع ہے کہ اس کے بعد ایک مستقل سمجھوتہ ہو جائے گا۔
15/اگست 1948 عیسوی کو یوم آزادی ہند کے موقع پر نائب وزیراعظم ہند سردار ولبھ بھائی پٹیل نے نشری تقریر میں کہا : کشمیر میں ابھی جنگ جاری ہے اور جہاں تک حیدرآباد کا تعلق ہے وہ ایک ناسور بن گیا ہے جس کا زہر بقیہ ہندوستان میں بدستور سرایت کرتا جا رہا ہے ۔ حکومت ہند کو اس بات کا اعتمادہے کہ وہ کشمیر اور حیدرآباد کے مسائل کو آنے والے دنوں میں حل کرلے گی۔ 8/اگست 1948عیسوی کو ہندوستانی پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نائب وزیراعظم ہند نے بتایا کہ : حکومت کو جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہیکہ اب تک 8/لاکھ ہندوستانی مسلمان حیدرآباد میں پناہ گزینوں کی صورت میں منتقل ہو چکے ہیں اور حکومت ہندوستانی مسلمانوں کی پناہ گزینوں کی صورت میں منتقلی کے انسداد کیلے ممکنہ تدابیر پر غور کر رہی ہے”۔ تقسیم ہند کے بعد نظام حیدرآباد دکن میر عثمان علی خان ریاست کوایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت دینا چاہتے تھے جب کہ ہندوستان چاہتا تھا کہ یہ ریاست کسی نہ کسی طرح ہندوستان میں شامل ہوجائے۔
Hyderabad
حیدرآباد کی سخت ترین معاشی ناکہ بندی ہو چکی تھی ذرائع حمل و نقل کے ساتھ ہی تیل پٹرول اور پینے کے پانی کے لئے کلورین بند ہو گئے شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔ دواؤںکا سلسلہ بہت پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔ فوجی چھیڑ چھاڑ کے واقعات شروع ہو گئے عثمان آباد کی چوکی پر حیدرآباد کی ایمیگریشن اور ہندوستانی فوجیوں کی جنگ میں بے شمار سپاہی ہلاک ہوئے۔ راست حملے کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات اور پاکستان کے کود پڑنے کا خطرہ تھا لیکن میجر جنرل چودھری کی My Secret Diary کے بموجب فروری 1948 عیسوی میں منصوبہ کو قطیعت دے دی گئی۔ فوجی کاروائی کا نام ” اپریشن پولو ” رکھا گیا۔ نظام کے خاندان کی تذلیل کے لئے یہ نام چنا گیا تھا۔ کیونکہ آصفجاہی شاہزادے اور اُمرأ پولوکھیل کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ ماہر بھی تھے ۔ جنرل چودھری اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ”11 ستمبر 1948عیسوی کو محمد علی جناح کا انتقال کر جانا افسروں اور جوانوں کے لئے ایک فالِ نیک ثابت ہوا۔ گاندھی جی پہلے ہی راستہ سے ہٹ چکے تھے ۔ حملے کی زبردست تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ادھر لارڈ ماؤنٹ بیاٹن نظام کو یقین دلا رہے تھے کہ نہرو حکومت ان کی اچھی طرح حفاظت کرے گی جبکہ نظام کی حیدرآبادی ناکہ بندی کے خاتمہ کی درخواست مسلسل حیلے بہانوں سے ٹالی جا رہی تھی۔ 13 ستمبر4:30 بجے حیدرآبادکی 22 سمتوں سے ہندوستانی فوج داخل ہوئی اور شولا پور کی طرف سے اور دوسرے بیرہ واڑی کی طرف سے سخت ترین حملے رہے ۔ حیدرآبادی فوجیں مسلسل پسپا ہوتی رہیں جس کے اکثر کمانڈر مسلمان تھے ۔ چار دن تک مسلسل ہزارہا مسلمانوں کے مرنے کی اطلاعات آتی رہیں ورنگل، بیدر اور اورنگ آباد پر اندھادھند بمباری کے ذریعے لاکھوں انسان خاک میں مل گئے یا پھر بے گھر ہو گئے ۔ 16 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں یہ معاملہ پیش آنے والا تھا اور آیا بھی لیکن ہندوستان نے اس کو نظام حکومت میں چند فرقہ پرست افراد کے خلاف ایک”پولیس ایکشن” کا نام دے کر مزید وقت لے لیا۔
13ستمبر 1948ء کوہندوستان نے صبح چار بجے حیدرآباد پر یلغار کردی‘ حیدرآباد کی فوجوں نے حتی الامکان دفاع کرنے کی کوشش کی مگر 17ستمبر کو شام چار بجے ان فوجوں نے ہتھیار ڈال دئیے ۔ دوسری طرف جو فوج سامنے تھی اس کو ختم کرنے کے لئے چار گھنٹے کافی تھے۔Stand Still Agreement کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب وغیرہ تمام ممالک حیدرآباد کے معاملے پرا گے بڑھنے سے انکار کر چکے تھے ۔ 17 ستمبر کو جنرل چودھری نے حیدرآباد کے فتح ہوجانے کی دہلی کو اطلاع دے دی۔ نظام کی معیت میں ریڈیو اسٹیشن پہنچ کر انہوں نے نظام سے ایک ہی لکھا ہوا اعلان پڑھوایا کہ وہ مستعفی ہو چکے ہیں۔ 17 اور 18 ستمبر کی شب وحشیوں کی عید کی رات تھی جہاں کوئی مسلمان نظر آتا ختم کر دیا جاتا ۔ کمیونسٹوں ،آریہ سماج اور ہندومہا سبھا کے کارندوں نے فوجیوں کو ایک ایک مسلمان کے گھر اور مال کی نشاندہی کروائی ۔ عورتیں بے عصمت ہوئیں ۔ ہزاروں بچے یتیم ہوئے ۔ اے میرے تلگو بھائیو! بدلہ لینے کا وقت آ پہنچا…حسین بدلہ!!! رضاکار مسلمانوں نے ہمارے ہندو بھائی اور بہنیں مار ڈالیں۔آئو اب ان کا خاتمہ کر ڈالیں۔ان مسلم رضاکاروں نے ہماری خواتین کی بے حرمتی کی ،آئو ہم ان کی عورتوں پہ حملہ کریں اور رشتے داروں کے سامنے عصمت دری کریںانتقام…انتقام…اب یا کبھی نہیں۔‘‘ درج بالا الفاظ کسی جنونی ہندو رہنما نہیں مشہور کانگریسی لیڈر،نر سمہا رائو کے ہیں جو 1991عیسوی تا 1996عیسوی ہندستان کا وزیراعظم بھی رہا۔یہ الفاظ اس تقریرکاحصہ ہیں جو 1948عیسوی میں تب نوجوان نرسیمہا رائو نے ریاست حیدرآباد دکن کے تیسرے بڑے شہروجے واڑہ میں ریلوے اسٹیشن پر ہندو مجمع کے سامنے کی تھی۔ چینائی(مدراس) کے مشہور مسلم دانشور،سید محمد پاشا نے اپنی کتاب Rape of The Nizam’s Hyderabadمیں اس کا ذکر کیا ہے ۔
یہ تقریرایسے وقت ہوئی جب 13ستمبر1948عیسوی کو بھارتی فوج ریاست پر حملہ کر چکی تھی۔ درج بالا خوفناک الفاظ واضح کرتے ہیں کہ 1948 عیسوی میں ریاست حیدرآباد کے انتہاپسند ہندو رہنمائوں نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کر کے ہندئووں کو ابھارا کہ وہ ان پہ دھاوا بول ڈالیں۔ ان کا حربہ کامیاب رہا۔کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا جس کی تفصیل سروجنی نائیڈو اور مہاتما گاندھی کے نواسے گاندھی جیسے ایماندار کانگریسیوں نے بیان کی ہے کہیں ان کی رپورٹیں آج بھی منوں بھر فائلوں کے نیچے پڑی ہونگی جس کے اوپر ہزارہا بھاگلپور و بمبئی جیسے فسادات کی رپورٹیں ہیں۔ سردار پٹیل اور پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ کو دھوکا دینے کے لیے فوجی حملے کو پولیس ایکشن کہادراصل متوقع ہندستانی حملے سے بچنے کی خاطر 10 ستمبر کو نظام آزادی کا معاملہ اقوام متحدہ لے گئے تھے ۔گو شکست کے بعد انھوں نے درخواست واپس لے لی مگر اقوام متحدہ نے معاملہ ختم کرنے سے انکار کر دیااقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ نظام نے حکومت ہند کے دبائو پر درخواست واپس لی اور حقیقت بھی یہی تھی، چونکہ ریاست کی آزادی کا مسئلہ اقوام متحدہ میں زندہ تھا،اسی لیے نہرو حکومت نے 1956ء میں حیدرآباد دکن کو آندھراپردیش(نئی ریاست) میں ضم کر دیا،مدعا یہ تھا کہ ریاست کو نقشے سے ہی غائب کر دیا جائے۔ ٭ 1969ء میں ریاستی باشندوں نے شد ومد سے تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ پیش کیا۔تاہم وزیراعظم اندرا گاندھی نے اسے اس بنیاد پہ قبول نہ کیا کہ وہ جانتی تھیں،ریاست حیدرآباد کامعاملہ U.N.O) (میں ہے ۔لہذا قدیم ریاست کے جغرافیائی مقام پر نئی ریاست کا قیام حکومت کے لئے مسائل کھڑے کر سکتا تھا۔ ٭ہندوستان میں پہلی ایمر جنسی13 ستمبر کو ریاست پہ حملہ کرتے وقت ہی لگائی گئی۔دراصل نہرو حکومت کو خوف تھا کہ حملے کے بعد دیگر علاقوں میں مسلمان اس کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں۔ سندرلال رپورٹ کی چند باتیں :۔ سندرلال رپورٹ کا یہ وفد پنڈت سندر لال ‘قاضی عبدالغفار اورمولانا عبداللہ مصری پر مشتمل تھا۔ اور یہ 29نومبر کو حیدرآباد پہنچا اور21ڈسمبر 1948کو دہلی واپس ہوا۔ اس مدت کے دوران وفد نے ریاست کے 16اضلاع کے منجملہ9کا دورہ کیا۔ 7ضلع مستقر،21ٹاون اور 23مواضعات کے علاوہ وفد نے 500سے زائد افراد جن کا تعلق 109مواضعات سے ہے جہاں وفد نے دورہ نہیں کیا وہاں انہوں نے انٹرویو لیا ہے ۔ مختلف مقامات پرمزید31جلسوں،27خانگی نشستوں جن میں ہندومسلم ،سرکاری عہدیداران کے ارکان مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ واسٹاف،ترقی پسند مصنفین کی اسوسی ایشن کے ارکان ،ہندوستانی پرچار سبھا وغیرہ کے نمائندوں، مندوبین وکارکن شامل تھے سے خطاب کیا۔ سندر لال رپورٹ میں ہندوؤں کی جانب سے کی گئی بہیمانہ کارروائیوں کا احوال بھی درج کیا گیا ہے۔
Hyderabad
سندر لال رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے،”کئی علاقوں میں ہمیں کنویں دکھائے گئے جو اس وقت بھی لاشوں سے بھرے پڑے تھے ۔ ایک جگہ ہم نے گیارہ لاشیں گنیں جن میں ایک بچہ ایک عورت کی چھاتی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا” رپورٹ میں کہا گیا ہے ”ہم نے کھڈوں میں لاشیں پڑی دیکھیں۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگائی گئی تھی اور ہم جلی ہوئی لاشیں اور کھوپڑیاں دیکھ سکتے تھے ” سندر لال رپورٹ کے مطابق صرف 4 دن میں 27 سے 40 ہزار افراد کو قتل عام کیا گیا۔،تقریباً تمام مقامات پر متاثرہ علاقو ں میں فرقہ وارانہ جنون صرف قتل تک محدود نہیں رہا ۔ مردوں کے علاوہ عورتوں اوربچوں کو بھی نہیں بخشاگیا۔ عصمت ریزی اور عورتوں کا اغو( کئی واقعات میں ریاست حیدرآباد کے باہر ہندوستانی شہروں جیسے شوالاپور، ناگپور سے آکر یہ جرائم کئے گئے)لوٹ مار، آتشزدگی، مساجد کی بے حرمتی، جبری تبدیلی مذہب،مکانات اور اراضیات پر قبضے ہیں۔ کروڑہا روپئے مالیت کی املکاک لوٹ لی گئی ںیا تباہ کردی گئیں اور متاثر ہونے والے مسلمان جو دیہی علاقوں میں بے یارومددگار ایک اقلیت ہے۔ یہ مظالم ریاست حیدرآباد کے غیر مسلموں پر نہیں تھے ۔ یہ مظالم انفرادی افراد کے علاوہ عوام کے ہجوم نے بھی انجام دیئے ۔ مسلح یا غیرمسلح ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو ہندوستانی فوج کے ریاست حیدرآباد میں داخلہ کے ساتھ سرحد پار سے داخل ہوگئے ۔ ہندوستانی فوج کے کردار کے بارے میں سندلال رپورٹ میں ہے کہ ہمارے فریضہ نے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کیا ہے کہ ہم نے ان میںبالکل ناقابل تردید واقعات کابھی ذکر کریں جہاں ہندوستانی فوج اورمقامی پولیس نے کیسے لوٹ مار اور دیگر جرائم میں حصہ لیا ہے۔ سندرلال رپورٹ کے وفد نے بیان کیا ہیکہ”جس طرح سے ہم سے خواہش کی گئی ہے کہ اسی کی بنیاد پر ہم نے کام انجام دیا ہے۔ اگر ایسی خواہش کی جاتی ہے تو ہم وہ تمام مناسب وموزوں مواد جسے ہم نے اکھٹا کیا ہے آپ تمام کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ (سندرلال رپورٹ کو تین قسطوںمیں (یکم دستمبر2013)اور(8دسمبر2013) و(15/ دسمبر 2013) روزنامہ اعتمادحیدرآبا کے شمارہ جائزہ میں شائع کی گئیں )۔