تحریر: سائرس خلیل مثالی اور تصوراتی سماج میں ہمیشہ چیزیں بیرونی طاقت کی طرف سے مسلط کردہ ہوتی ہیں۔ اگر یوں کہیں کہ پسماندہ سماج میں عام فرد کی سوچ و فکر سے لے کر کھانے پینے اور ضرورت کی تمام اشیاء تک سب مسلط طاقتوں کا دیا ہوتا ہے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ جسکا فائدہ یقینی طور پر بیرونی مسلط قوتوں کو ہی ہوا کرتا ہے۔ وہاں عام فرد کا خواب انفرادی زندگی کو بہتر بنانے کا ہوتا ہے۔انفرادی سوچ کی بنیاد پر لالچ و خود غرضی اپنا اثر خوب دکھاتی ہے۔جس سے تخریب کاری، سماج کی پسماندگی اور حاکم طاقتوں کو مزید تقویت ملتی ہے۔
اگر ریاست جموں کشمیر کے خطہ آزاد کشمیر کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں صاف نظر آتا ہیکہ قومی غلامی کی وجہ سے ریاست شہریوں کو بہتر زندگی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہاں فردِ واحد کا خواب خواہش و مقصد اپنی نجی زندگی سے ہٹ کر کبھی بھی سماجی واجتماعی زندگی کی طرف نہیں بڑھ پایا ہے۔ جسکی وجہ سے سماج نہ صرف جمود کا شکار ہے بلکہ بہتر سے بہتر زندگی کے حصول کی خاطر لوگوں کی بیرون ملک ہجرت سے انسانی شکل میں قومی اثاثہ بھی ریاست سے لوٹ کر بیرونی ملک بھیج دیا جاتا ہے۔ نوآبادیات میں حاکم و محکوم قوم کا تضاد سامنے آتا ہے۔ایسے سماج میں مادی دولت یا مادی پیداوار صفر ہو جاتی ہے۔ اور ایسی ریاستوں کو منڈی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے نہ صرف پیداواری عمل رکتا ہے بلکہ انفراسٹریکچر کے جدید نہ ہونے کی وجہ سے انسانی شعور بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ ریاست جموں کشمیر کہ ساتھ ہوا ہے۔
چونکہ انسان معاشرتی جانور ہے پسماندہ خطوں میں مادی پیداوار کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے پسماندہ خطہ کا انسان فطرتاً رومانیت اور تصور پرست بن جاتا ہے۔ وہاں کا فرد اپنی ایک خیالی اورتصوراتی دنیا بنا لیتا ہے۔ جہاں وہ بڑے بڑے محل تعمیر کرتا ہے،سماج سے لے کرمذہب و سیاسی نظام تک سب کا ایک خاکہ بنا لیتا ہے، جن کا مقصد اسکی ذات کو طاقت بخشنا ہوتا ہے۔یہ سب چیزیں اس حقیقی دنیا کی نسبت زیادہ سہل،منظم اور باقاعدہ ہوتی ہیں، وہ اسی میں زندگی بسر کرتا ہے اور دنیا کو اپنی تصوارتی دنیا کے ساتھ ملا کہ سکون محسوس کرتا رہتا ہے۔ مگر جب معروض خیالی دنیا سے مختلف نظر آتا ہے مایوسیاں آ دھمکتی ہیں جس سے فرد بے عملی کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔
اچھا بھلا مادی حالات بھی کیا کسی کی تصوراتی دنیا کہ تابع ہوا کرتے ہیں؟ یقیننا نہیں۔ پسماندہ و تصوراتی سماج میں ہر پہلی نسل اپنی نئی نسل کو اپنے دیکھے خواب پورا کرنے پر لگا دیتی ہے۔ جوکہ پہلی نسل کا خواب انفرادی طرز کی زندگی کو سہل بنانے کے خواب ہوا کرتے ہیں۔ جس سے نئی نسل کی خوبیوں اور صلاحیتوں کی نشونماء نہیں ہو سکتی بلکہ صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں جس سے اجتماعی طور پر سماج ایک مشترکہ سوچ کی طرف بڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔ جس سے سماج کا جمود تو قائم رہتا ہی ہے بلکہ چیزیں آگئے کی طرف بڑھنے کہ بجائے پستی کی جانب سفر شروع کرتی ہیں جس سے تخریب کاری بڑھتی ہے بلکہ مسلط قوتیں مزید طاقت سے اپنا جبر قائم رکھتی چلی جاتی ہیں۔
قومی غلامی سے دوچار خطہ ریاست جموں کشمیر کی عوام کو سمجھنا ہو گا کہ فرد کی بقاء اور بہتر زندگی ایک آزاد ریاست و سائنسی سماج کے قیام کہ بغیر ممکن نہیں۔ انفرادی سوچ خود میں ہی اجتماعی نفسیات کا اظہار ہوا کرتی ہے۔
ایسے سماج میں وہاں کے باشعور نوجوان کا کردار بنتا ہیکہ وہ پسماندہ سماج کی تصوراتی سوچوں کے جال کو توڑ کر حقیقی دنیا سے اپنی قوم کو نہ صرف روشناس کروائے بلکہ دوگنی طاقت سے حاوی رجحان کو کاری ضرب لگائے۔قومی جبر میں جکڑی پسماندہ ریاست کا حل صرف و صرف قومی جمہوری انقلاب کی صورت ہی ممکن ہے۔