پشاور (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن فضل خان ایڈوکیٹ پشاور میں قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔
وہ منگل کو عدالت سے اپنے گھر جا رہے تھے جب نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان کا راستہ روک کر ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ لیکن وہ بڑی مشکل سے وہاں سے جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ان کے قریبی ذرائع کے مطابق انہیں ایک عرصے سے فون پر ‘جان سے مارنے‘ کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور نامعلوم افراد ان کے محلے کے چکر لگا رہے تھے جس کے باعث انہوں نے گھر سے نکلنا کم کر دیا تھا۔
فضل خان ایڈوکیٹ پشاور میں سول سوسائٹی کی تنظیم اے پی ایس شہدا فورم کے صدر ہیں۔ سن دو ہزار چودہ میں پشاور آرمی پبلک اسکول میں طالبان نے جن 147 لوگوں کا قتل عام کیا، ان میں فضل خان کا چودہ سالہ بیٹا صاحبزادہ عمر خان بھی شامل تھا۔
فضل خان نے تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر اور سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے معاملے پر بھی عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔ پچھلے سال احسان اللہ احسان کی سکیورٹی اداروں کے ساتھ مبینہ ڈیل کے نتیجے میں رہائی کے بعد انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں سول ملٹری لیڈرشپ کو جوابدہ بنایا گیا تھا۔
حالیہ کچھ عرصے میں وہ پشتون تحفظ مومنٹ میں بھی متحرک تھے۔
اس سال جنوری میں پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف پشاور میں احتجاج کے بعد پولیس نے تنطیم کی سرگرم اراکین ثناء اعجاز، جمیلہ بی بی اور دیگر کے ساتھ فضل خان ایڈوکیٹ کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی تھی۔ یہ سب لوگ اس مقدمے میں ضمانت پر رہا تھے۔
لیکن منگل کو سیسشن کورٹ نے ان کی ضمانت میں توسیع منسوخ کر کے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا تھا، جس کے فوری بعد انہوں نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کر کے تین دن کی عبوری ضمانت حاصل کر لی تھی۔
فضل خان شام کو ہائی کورٹ سے نکل کر گھر جا رہے تھے جب گھر کے قریب ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔
‘ملک میں انصاف مانگنا جرم بن گیا‘
فضل خان نے کہا کہ ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔
انہوں نے کہا ”واحد جرم یہ ہے کہ میں حق و انصاف کے لیے اپنی آواز وقتاً فوقتاً بلند کرتا رہا ہوں۔ ہمارا گناہ یہ ہے کہ ہم لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزيد کہا کہ ’’میرا پہلے دن سے مطالبہ ہے کہ اے پی ایس سانحے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تاکہ معصوم بچوں کے قتل عام میں جو بھی لوگ ملوث تھے انہیں بے نقاب کر کے واقعی سزا دی جائے۔‘‘
فضل خان نے کہا کہ جب احسان اللہ احسان نے خود کو سرنڈر کیا انہیں اس وقت سے خدشہ تھا کہ اُسے چھوڑ دیا جائے گا اور ہوا بھی یہی۔ ”ریاست نے اُسے اپنے پاس شاہی مہمان بنا کر رکھا اور پھر بعد میں چھوڑ بھی دیا۔ اب وہ بلاول بھٹو کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ وہ اب دوبارہ کسی کو مار سکتا ہے۔‘‘
فضل خان نے کہا، ”میری ریاست میری ذمہ دار ہے۔ اگر میں مارا گیا تو میری ریاست میری قاتل ہوگی۔ میں گورنمنٹ آف پاکستان کو ٹیکس دیتا ہوں۔ پُرامن شہری ہوں۔ حق و انصاف کے لیے جد وجہد کر رہا ہوں۔ میری حکومت پابند ہے کہ میری حفاظت یقینی بنائے اور جنہوں نے مجھ پر حملہ کیا انہیں گرفتار کرکے انہیں واقعی سزا دے۔‘‘