تحریر : غلام حسین محب پاکستان کی سیاسی پارٹیاں تو ہر موقع کو غنیمت جان کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔ قبائلی عوام عرصہ دراز سے غیر انسانی اور غیر پاکستانی رویوں کا شکار رہے ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے فاٹا ایشو میں تیزی آئی ہے توبعض سیاسی لیڈر میدان آچکے ہیں ان میں سے ایک مولانا فضل الرحمان بھی ہیں جو آئے روز جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں قبائل اصلاحات پر بول رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے پہلے قبائل سے پوچھا جائے یعنی وہاں ریفرنڈم کرایا جائے۔اب مولانا صاحب کو کوئی کیسے سمجھائے کہ فاٹا کے عوام کا ریفرنڈم تو ہو چکا کیونکہ مشرف حکومت سے پہلے فاٹا ریفارمز کمیٹی بنی تھی جس نے کئی ماہ کام کرکے سفارشات مرتب کیں جو مشرف حکومت کے حوالے کیے گئے تھے۔پھر پی پی حکومت میں ایک سرکاری کمیٹی بنی جس میں سابق جسٹس اجمل میاں اور دیگرسینئر شامل تھے۔
اس کمیٹی نے ہر قبائلی ایجنسی کا دورہ کرکے وہاں کے جوانوں بوڑھوں اور ملکان و مشران سے ملاقاتیں کیں۔ ان کا موقف جانا کیا یہ ریفرنڈم نہیں ؟اس سے بھی پہلے پی پی حکومت میں قبائل میں لاگو ایف سی آرمیں ترامیم کے لیے اقدامات کیے گئے اور ابتدائی طور پر بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا حق دیا گیا۔دوسرے مرحلے میں سیاسی پارٹیوں کو فاٹا میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔اس دوران کبھی مولانا صاحب کی طرف سے کوئی اظہار خیال نہیں کیا گیا ۔قبائلی عوام ایک طویل عرصے سے اس فرسودہ اورظالمانہ نظام ایف سی آر سے نجات کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں قبائلی تعلیم یافتہ طبقہ ،وکلاء ، شعراء اور صحافی برادری کب سے آواز اٹھا رہے ہیں کہ قبائل کو پاکستان کا حصہ تسلیم کیا جائے۔یہاں کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق دیے جائیں اور کالا قانون ایف سی آر کو ختم کرکے پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح حقوق دیے جائیں۔ قبائلی علاقوں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے موجودہ حکومت میں اس جانب توجہ دی گئی اور کئی محاذوں پر سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔پشاور کی سطح پر قبائلی وکلاء نے اس می بھر پور کردار ادا کیا جبکہ بنیادی کام سیاسی پارٹیوں کے اتحاد نے کیا جب پہلے مرحلے میں ہر ایجنسی کی سطح پر سیاسی اتحاد عمل میں آیا اور بعد میں آل قبائل سیاسی اتحاد بن گیا جس نے جلسوں، جلوسوں اور پریس کانفرنسز کے ذریعے ایک بھر پور تحریک کا آغاز کیا۔
FATA
موجودہ حکومت نے حالات کا ادراک کیا تو وہ مجبور ہوگئی کہ اب قبائل کو پاکستانی تسلیم کیا جائے۔اس مقصد کے لیے حکومت نے ایک اور کمیٹی تشکیل دی۔اس کمیٹی نے ہر قبائلی علاقے کا دورہ کیاوہاں کے عوامی نمائندوں، قبائلی عمائدین اور نئی نسل کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا۔مقصد کے لحاظ سے یہ کمیٹی صحیح سمت میں کام کرنا چاہتی تھی کیونکہ مرکزی حکومت کی خواہش تھی کہ قبائل کو اب قومی دھارے میں شامل کرنا ہے۔اس کمیٹی نے سب سے اچھا ایجنڈا قبائل کے سامنے رکھا اور تین آپشن دے دیے۔(١) فاٹا کو علیٰحدہ صوبہ بنایا جائے ۔ (٢) فاٹا کو صوبہ پختونخوا میں ضم کیا جائے۔ (٣) فاٹا کی گلگت بلتستان کی طرح ایک علیٰحدہ کونسل بنائی جائے۔ اس کمیٹی نے قبائل کے موقف کو لیکر وزیراعظم کے سامنے پیش کردیا۔یاد رہے کہ اس دوران فضل الرحمان خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔اس تحریک میں گرمی اس وقت آئی جب قبائل سیاسی اتحاد قبائلی وکلاء کے ساتھ مل کر صوبہ پختونخوا میں انضمام پر متفق ہوگئے۔جبکہ اس سیاسی اتحاد کو قبائلی اساتذہ، وکلائ، شعرائ، صحافی برادری اور نوجوانوں کی حمایت حاصل تھی۔
اب ا تے ہیں ان تین آپشنز پر ، ان میں سے سب سے بہترین آپشن قبائل کا علیٰحدہ صوبہ تھا جس سے ان کا دیرینہ احساس محرومی ختم ہو جاتا مگر کافی غورو حوض کے بعد فیصلہ ہوا کہ قبائل کو صوبہ پختونخوا میں شامل کیا جانا چاہیے۔کیونکہ علیٰحدہ صوبہ کا مطالبہ فوری طور پرنا مناسب تھا۔ پاکستان اس وقت جن پیچیدہ حالات سے دوچار ہے ایسے میں یہ مراحل طے کرنے مشکل ہونگے۔کیونکہ علیٰحدہ صوبہ کی صورت میں سب سے پہلے اس کے نام کا مسٔلہ درپیش ہوگا جس پر اتفاق رائے کے لیے وقت درکار ہوگا۔دوسرا یہ کہ صوبائی مرکزکے انتخاب پر اتفاق رائے لانا بھی ایک مسٔلہ تھا۔اور پھر ایک صوبائی حکومت کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کوئی آسان کام نہیں تھا۔اسی وجہ سے سیاسی پارٹیوں اور وکلا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ قبائل کو صوبہ حصہ بنایا جائے۔اور یہی وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا ہے۔اس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے اعلان کیا ہے کہ حکومتی سطح پر قبائل کو پختونخوا کا حصہ بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ان کے اس اعلان نے قبائلی عوام کو خوش تو کردیا ہے مگر دوسری طرف وہ عناصر بھی سرگرم عمل ہوچکے ہیں جو قبائل کی قسمت بدلنے کے خلاف ہیں۔ان میں ایک طرف وہ بیوروکریسی ہے جوسالہاسال سے قبائلی دولت پر وارے نیارے کرتے ہوئے کروڑوں روپے سالانہ آپس میں تقسیم کرتے ہیں قبائلی ملکان اور عمائدین بھی اُن کے ساتھ شریک ہیں۔جبکہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے بھی اس اصلاحی عمل کو روکنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگانا شروع کیا ہے۔
مولانا صاحب کہتا ہے کہ ہم بھی ان علاقوں میں ایف سی آر کے خلاف ہیں مگر اس کو صوبے میں نہیں بلکہ علیٰحدی صوبہ بنایا جائے۔اب مولانا صاحب کو معلوم ہے کہ الگ صوبہ بنانے کے لیے مزید کئی سال انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ یہ ایک بڑامشکل مرحلہ وار کام ہے سب سے پہلے صوبائی دارالحکومت پر اتفاق،پھر تمام محکموں کو صوبائی مرکز میں لانا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ باجوڑ ایجنسی سے وزیرستان تک کا زمینی رابطہ بحال کرنا۔الغرض قبائل کو پہلے مرحلے میں صوبہ پختونخواکے ساتھ ضم کیاجانا ضروری ہے تاکہ قومی دھارے میں شامل ہوکر پہلے ان کو پاکستانی تسلیم کیا جائے اور ایسا کرنا آئندہ عام انتخابات 2018 تک ہوجانا ضروری ہے تاکہ آئندہ صوبائی اسمبلی میں قبائل کی نمائندگی یقینی ہوجائے اور جب یہ مرحلہ تکمیل کو پہنچے تو پھر ایک عرصے بعد الگ صوبہ کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ ۔۔۔۔