پاکستان 20 کروڑ لوگوں کا مسکن ، ایک اٹیمی طاقت ، اسلام کا قلعہ جس کا قیام ہی اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا افسوس عالمی فسطائی طاقتوں نے ایسا کھیل کھیلا کہ کہ آج پاکستانیوں کو فکر معاش میں ڈال کو انہیں عظیم مقصد سے ہی دور کر دیا گیا ہے یہ اسلام دشمنوں کی سازش کا ہی ایک حصہ ہے کہ ہمیں گروہی ، لسانی ،صوبائی ٹکروں میں بانٹ کر معاشی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی معشیت کو دیوالیے کے دہانے پر پہنچا دیا جائے تاکہ پاکستان کے دشمنوں کو یہ کہنا پڑجائے کہ ایک کمزور ریاست اپنے اٹیمی اثاثوں کی حفاظت کیسے کرے گی؟ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ حالانکہ وزرا عظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں تبدیلی کی منتظر ، نئے خوشحال ، کرپشن سے پاک اور انصاف پسند نئے پاکستان کو خواب آنکھوں میں سجائے پاکستانی قوم سے بڑے پرجوش و ولولے سے کہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو رعاست مدینہ کی طرز پر بنایا جائے گا اور ساتھ ہی 100 دن کا فلاحی پروگرام بھی پیش کر دیا مگر کیا ہوا سو دن تو کیاآٹھ ماہ سے زیادہ گزر چکے ہیں ۔ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ ایفاء نہ ہو سکا۔ڈالر کی اونچی اڑان نے ملکی معشیت کی ڈوبتی نائو کو بیچ منجدھار میں لا کر پھنسا دیا۔سوئی گیس ، بجلی ،پانی کے بلوں میں ہوشربا اضافے نے ماہر معاشیات اور الیکشن سے قبل ا پنی تقریروں میں پٹرول 45 روپے لٹر فروخت کرنے کے دعویدار کی اعلیٰ کارکردگی کا پول صرف چند مہینوں میں کھل گیا۔ وزیر موصوف نے بیان دیا کہ اتنی مہنگائی آئے گی کہ عوام کی چیخیں نکل جائیں گی ۔ موجودہ حالات نے ان کے بیان پر مہر ثبت کر دی ہے۔
کیا یہ ہے ریاست مدینہ ؟ حکومت نے ایک سال پورا ہونے سے پہلے تین ماہ میں معاشی اصلاحات کے نام پرمنی بجٹ پیش کر دئیے گئے اور اس میں ٹیکسوں کی بھرمار ۔ اشیائے خوردونوش کی قمیتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادی پہلے ہی بمشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں اوپر سے حکومتی غریب کش پالیسیوں نے جینا اور بھی دشوار کر دیا ہے۔اگرچہ حکومت کا غریب مٹائو پروگرام ایک احسن اقدام ہے کیا اس سے ملک کا اسی فیصد طبقہ مستفید ہو سکے گا جس کی فی کس آمدنی ایک ڈالر سے کم ہے۔
جبکہ احتساب کا عمل انتقامی کاروائیوں میں بدل چکا ہے ۔سیاسی مخالفین کی گرفتاری ان کے گھروں پر چھاپے، عام طبقے کو اس کرپشن کے آپریشن سے کوئی سروکار نہیں انہیں پیٹ بھرنے کے لئے روٹی چاہیے جو منی بجٹوں کی موجودگی میں مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے، انہیں صحت کی سہولیت چاہیے جو ان سے چھین لی گئی ہے۔ ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت نے سرکاری ہسپتالوں میں مفت سہولیات پر ہی پابندی عائد کر دی ہے جن میں اب او پی ڈی یا ایمرجنسی میں آنے والے اور اسپتالوں میں مہنگی ادویات کے بعد ٹیسٹوں کی مفت سہولت کے خاتمے نے غریب مریضوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ غریب اور متوسط لوگوں کی اکثریت کو علاج معالجہ کی سہولیات سے محروم کر کے ادویات کی قیمتوں میں 300 فیصد اضافے اور سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹوں کی مفت سہولیات ختم کرکے غریب مریضوں کو زندہ درگور کر دیا گیاہے۔دل،گردے، جگر سمیت تمام ادویات حتی کہ سر درد کی ڈپسرین تک کی قیمت بڑھانا شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ حکومت 22کروڑ عوام کو انسانی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی بجائے کمر توڑ مہنگائی کر کے ان سے جینے کا حق بھی چھین رہی ہے۔
حسب معمول حکومت نے دوائیوں کی بڑھتی قیمتوں کا ملبہ بھی مسلم لیگ ن کی حکومت اور سپریم کورٹ پر ڈال کر وہ خود اس مہنگائی کے الزامات سے بری الذمہ ہو گئی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نئے پاکستان میں مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے، عام لوگوں کے علاوہ سرمایہ کار بھی اس صورت حال سے خاصے پریشان ہیں جو ملکی معیشت کے لئے اچھی علامت نہیں ہے، اجناس، سبزیاں، فروٹ پیٹرول گیس بجلی،ادویات ، بچوں کے دودھ کے ساتھ کاپی کتابیں اور دیگر چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ناقص معاشی پالیسیوں کی بدولت کاروباری طبقہ ذہنی اذیت سے دوچار ہے۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہِ راست اثر ان اشیاء کی قیمتوں پر ہوتا ہے جو بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں جیسے کہ کمپیوٹرز، گاڑیاں اور موبائل فونز وغیرہ اور ان تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔
موجودہ حکومت میں پاکستان کی برآمدات مستقل گر رہی ہیں اور درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ چار سال چار ماہ میں 107 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا ہے جبکہ سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو چکی ہے ۔ایسے میں حکومت وقت کے وعدوں ،بلند وبانگ دعوں کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں۔ہر دور میں آنے والے ہر حکمران نے غریبوں کا مختلف صورتوں میں استحصال کیا ہے ،کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ،کسی نے خادم اعلی ٰکا خطاب لگا کر تو کسی نے نئے پاکستان کی بات کرکے۔یہ کیسی ریاست مدینہ ۖکی طرز کی حکومت ہے ؟کہ جہاں غریب ایک وقت کی روٹی کے لیے لقمہ اجل بننے پر مجبور ہوچکا ہے ۔سادگی کی مثال یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے بلٹ پروف گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرتے ہیں اور عوام کو سانس لینے پر بھی ٹیکس دینا ہوگا ۔سچ ہر دور میں ناقابل برداشت ہو تاہے۔
سچ زہر پینے اور جیون تیاگ دینے کا نام ہے خود اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے وہ صدیوں پہلے کا سقراط بولے یہ پھر آج کا راقم الحروف ۔سزائوں کی تکالیف میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں آئی اور سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت بری طرح فلاپ ہوچکی ہے عوام میں ڈیلیور نہیں کرسکی بلکہ وہ بلندوبانگ دعوئے سیاستدانوں کی دلفریب باتوں کے سواء کچھ نہیں جن آج تک کوئی علمدرآمد کرنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔