سینئر صحافی حامد میر پر حملے نے جہاں اس بات کو ثابت کیا کہ پاکستان کے عوام میں میڈیا کیلئے انتہائی عزت و احترام کے جذبات موجود ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ صحافی برادری جہاں انہیں ہر لمحہ با خبر رکھنے کا فریضہ انجام دیتی ہے وہیں سرکاری و غیر سرکاری کرپشن ‘ اختیارات کے ناجائز استعمال ‘عوام کے استحصال ‘ ذاتی و گروہی مفادات کیلئے قومی و عوامی مفادات کیخلاف گٹھ جوڑ کا پردہ بھی فاش کرتی ہے جبکہ ملک دشمن سرگرمیوں اور اندرونی و بیرونی دشمنوں پر نگاہ رکھنے اور ذمہ دار ومتعلقہ اداروں کو ان سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کا اضافی مشن بھی انجام دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو عشروں کے درمیان ایک منظم عالمی سازش کے تحت پاکستان میں تفرقہ پرستی ‘ لسانیت و صوبائیت ‘ انتہا پسندی’ عسکریت پسندی اور دہشتگردی کو فروغ دیکر پاکستان کی معیشت کو اس طرح برباد کیا گیا کہ عوام روٹی کے ایک ٹکڑے کیلئے بھی باہم دست و گریباں ہوں اور مذہبی و لسانی نفرت پاکستانیوں کو پاکستانیوں کے خون پر اس طرح سے اکسائے کہ ہر شہر ‘ ہر گاؤں ‘ ہر محلہ اور ہر گلی لہو رنگ ہو اور ہر گھر سے جنازے نکل رہے ہوں۔
جبکہ رب فروش مذہبی بازیگروں ‘ وطن فروش اقتدار پرستوں ‘قوم فروش سیاستدانوں ‘ ایمان فروش بیورو کریسی اور ہوس پرست سرمایہ داروں کو اپنے ساتھ ملاکرپاکستان کی تباہی کے اس عالمی ایجنڈے کو تیزرفتاری سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اسلحہ و منشیات کو عام کرکے تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ اور ہنر مند و غیر ہنر مند نوجوانوں کی خواہش ترقی اور مایوسی کو نشانہ بناکر انہیں جرائم کی راہ دکھائی گئی جس کے بعد اغواء برائے تاوان ‘ بنک ڈکیتیوں ‘ بھتہ خوری ‘ ٹارگیٹ کلنگ اور آبروریزی جیسے واقعات نے عوام کو مکمل طور پر غیر محفوظ بنادیا مگر یہ سب کچھ جس پیمانے پر ہورہا ہے اور جس قدر اعلیٰ سطح کے افراداس سازش میں آلہ کار کا کردار ادا کررہے ہیںاگر میڈیا اور اس کا خوف نہ ہوتا اور صحافی برادری اپنی جانوں پر کھیل کر حقائق تک رسائی اور سچ کی عوام تک منتقلی کا فریضہ انجام نہ دے رہی ہوتی تو شاید آج پاکستان میں جنگل کا قانون ہوتا۔
جہاں طاقتور جانور کمزور کا شکار کرکے اپنی طاقت کو بھی آزماتا ہے اور بھوک بھی مٹاتا ہے اور شکاری کی طاقت وبھوک کا نشانہ بن جانے والے کمزور کے لاشے کا بچا کچھا گوشت یا تو بھیڑیوں اور گیدڑوں کی ضیافت کے کام آتا ہے یا پھر کرگس جاتی ( گدِھوں ) کا طعام بن جاتا ہے لیکن مشرف دور میں سرکاری قید سے آزاد تیزرفتار الیکٹرونک میڈیا کے وجود میں آنے اور نوجوان مگر حوصلہ مند پاکستانیوں کو ان چینلز میں موقع دیئے جانے سے پاکستان اور عوام شیروں کے ساتھ ‘ بھیڑیوں ‘ لومڑیوں ‘گیدڑوں اور گِدھوں سے کسی نہ کسی حد تک محفوظ ضرور ہوگئے ہیں گوکہ حالات اب بھی بہت اچھے نہیں ہیں قانون کی عملداری کا وجود بتدریج مٹ رہا ہے ‘ مقتدر حلقے قانون سے ماورا ور بالا ہیں ‘ سرمایہ دار انصاف اور قانون دونوں کو خرید نے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
Pakistan
قانون بنانے والوں کے ساتھ قانون کی تشریح اور اس پر عملدرآمد کرانے والوں کا کردار بھی مشکوک ہو چکا ہے مگر اس کے باجود پاکستان قائم ہے اسلئے کہ ریاست کے چار ستونوں عدلیہ ‘ مقننہ ‘فوج اور میڈیا میں سے دو ستونوں کی دیانتداری و فرض شناسی پر عوام کا اعتماد اب بھی قائم و دائم ہے گوکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی شعبہ اور ادارہ بے ایمانوں ‘ ضمیر فروشوں ‘مفاد پرستوں اور ابن الوقتوں سے پاک نہیں ہوتا مگر کہیں ان کی تعداد اقلیت میں ہوتی ہے تو کہیں اکثریت میں اور بد قسمتی سے جہاں ریاست کے دو ستون ایسے افراد کی اکثریت کا شکار ہو چکے ہیں وہیں بقیہ دو ستون ابھی ایسی اکثریت سے محفوظ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سرمائے اور مفادات کے تحت چلائے جانے والے میڈیا ہاؤسزاور اخبارات سے وابستہ صحافیوں کے دیانتدارانہ کردار کے باعث ریاست کے چوتھے ستون پر عوام کا اعتماد اب بھی قائم تھا مگر حامد میر پر افسوسناک حملے کے بعد عوام نے جہاںاس حملے کیخلاف مذمت و احتجاج کرکے حامد میر پر حملے کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا اورملک کے ہر کونے و قریئے میں ہر طبقہ فکر و عمراور صنف و ذات کے افراد نے حامد میر سے اظہار یکجہتی و ان کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی وہیں ایک میڈیا گروپ کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے باعث افواج پاکستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان پر نہ صرف شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا بلکہ اسے ریاست کے دفاعی ستون کیخلاف سازش قرار دیتے ہوئے اس میڈیا گروپ کیخلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا جسے حکومت اور عسکری قیادت دونوں کی جانب سے شرف قبولیت بخشتے ہوئے عدالتی اور محکمہ جاتی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔
قطع نظر اس کے کہ اس تحقیقات کا انجام کیا ہوگا؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک میڈیا ہاؤس کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل و نشریات کو اپنی اپنی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بناکر دیگر میڈیا ہاؤسز اور چینلز نے بھی کسی دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ میڈیا پر موجود عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور میڈیا کی دیانتداری پر شک کے بیج کو پروان چڑھانے میں سب کا کردار تقریباً یکساں ہی رہا ۔ جس نے ریاست کے چوتھے ستون یعنی میڈیا کے حوالے سے بھی عوام کو اب اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔
دوسری جانب قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے معتبر صحافی حامد میر نے ہوش میں آنے کے بعد اپنی گفتگو کو سخت الفاظ سے پاک رکھتے ہوئے اپنی جان کیلئے خطرات کا ذمہ دار ریاستی اداروں کو ٹہرایا اور تقریباً وہی مؤقف اپنا یا جسے میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل قرار دیکر عوام ناپسندیدگی کا اظہار اور مذکورہ میڈیا ہاؤس کیخلاف مشرف جیسی آرٹیکل 6 کی کاروائی کا مطالبہ کررہے ہیں مگر حامد میر کے مؤقف سے پیدا ہونے والے تاثر نے قومی سلامتی کے ضامن ریاست کے تیسرے ستون پر عوام کے اٹل اعتماد کو متزلزل کردیا ہے اور اس زلزلے کے جھٹکوں کا اثر ان علاقوں میں بہت شدت سے محسوس کیا جائے گا۔
Pakistan Terrorism
جہاں عسکریت پسندی اور علیحدگی کا رجحان دہشتگردی کا روپ دھارچکا ہے کیونکہ بلوچستان سمیت خیبر پختونخواہ کے کئی علاقوں اور وانا و وزیرستان میں عرصہ سے یہ تاثر پھیلایا جارہا ہے کہ وفاق پر قابض ٹولے کے پاس ستحصال ‘ حق تلفی ‘ ناانصافی اور مخالفین کو کچلنے کیلئے سب سے بہترین ہتھیار فوج ہے جس سے وہ ہمارا شکار کررہا ہے اور اس تاثر نے وفاق مایوس و محروم علاقوں کے عوام میں وفاق کے ساتھ فوج کیخلاف نفرت کو بھی جنم دیا جبکہ حامد میر پر حملے اورحملے کے بعد سامنے آنے والے حامد میر کامؤقف فوج کو گہنگار سمجھنے والے سفوج مخالف حلقوں اکے اس تاثر و نفرت پر مہر تصدیق ثبت کر دیگا جس کے نتائج بہت بھیانک نکل سکتے ہیں کیونکہ حکومت طالبان مذاکرات میں اب وہ پہلے سا جوش و جذبہ اور خلوص باقی نہیں بچا جبکہ بلوچستان کے حالات میں بھی بہتری آنے کی بجائے مزید ابتری دکھائی دے رہی ہے اور تحفظ پاکستان آرڈیننس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد ان تمام علاقوں اور صوبوں میں فوج کیخلاف نفرت کو مزید ہوا دے گا جہاں جرائم کی سرکوبی اور امن و امان کی بحالی کیلئے رینجرز اور فوج کے دستے موجود ہیں۔