روسو نے کہا ”انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن جہاں دیکھو پا بہ زنجیر ہے”۔ یہی بات روسو سے صدیوں پہلے حضرت عمر نے کہی۔ فرمایا ”لوگوں کو اُن کی ماؤں نے آزاد جَنا تھا، تم نے کب سے اُنہیں اپنا غلام بنا لیا؟”۔ آج شہنشاہیت ہو، آمریت یا جمہوری تماشا، انسان پابہ زنجیر۔ آزادیٔ جمہور کا پودا مجبوروں، مقہوروں اور مفلسوں کے خون پسینے سے ہی تن آور ہوتا ہے۔ مزدور کی پیشانی کا عرق اشرافیہ کی جھولی میں گِر کر گہرِ آبدار بن جاتا ہے اور کسان کے خون میں گندھا اناج جاگیردار کے خزانے بھرتا ہے۔ مزدور کے لیے گھر نہیں، دَر نہیں، کسان کے لیے خِرمن نہیں، دانہ نہیں۔ اُن کے حصّے کا رزق تہ سنگِ گراں۔ یہ خاک نشیں تو فقط جینے کی روایت نبھائے جا رہے ہیں۔ اِن ”حشرات الارض کی آنکھوں میں آرزوؤں کی اَن کہی داستانیں بھلا اطلس وکمخواب میں لپٹے معطر اجسام کیا جانیں۔
ایک طرف بھوک کے عفریت کدوں میں پابندِ سلاسل غلام ابنِ غلام جو کورونا کی گندھی ساعتوں میں لبِ گورتو دوسری طرف نام و نمود، رفعتِ مقام اور شہرتِ دوام کی خواہش میں غرق بھوکے گِدھ جو بے خبر کہ جن کی خاطر وہ ہمہ وقت سیم وزَر کے جال بُننے میں مگن، وہ پتہ نہیں قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی آئیں گے یا نہیں۔قُرآن کا فرمان کہ ”مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ دیا ہے، اُن کو یقیناََ کئی گُنا بڑھا کر دیا جائے گا” (احدید ١٨)۔۔۔۔۔ ”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالےٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اُس کی مثال اُس دانے جیسی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میںسو دانے ہوں، اور اللہ چاہے تو اور بڑھا دے”۔ (ابقرہ ١٢٦)۔ اِس کے علاوہ سورة محمد، الحدید، الذاریات، اللیل، سورة توبہ اور کئی اور سورة مبارکہ میں بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن یہ بھوکے گِدھ، کرپشن کے مگرمچھ ، سمجھتے ہیں نہ سمجھیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہی فرمایا گیا ”دردناک سزا کی خبر دو اُن کو جو سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے” (سورة توبہ ٣٤)۔ سورة بقرہ میں یوں تلقین کی گئی ”خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو”۔ لیکن اِنہیں بھروسہ اپنے اُن ”پاسبانوں” پر جنہیں میڈیا پر رونمائی کا جنون۔ تقریباََ ہر روز میڈیا پر ”منڈلی” سجتی ہے لیکن محض نشستند وگفتند و برخاستندتک محدود، باتیں وہی جو ہر کَس وناکس کو اَزبر۔ آج کے پُرفتن دَور میں قوم صحابہ کی سی اخلاقی عظمت کی طلبگار نہیںکہ بھکاری کبھی مقامِ خواجگی نہیں پا سکتا مگر لازمۂ انسانیت ضروری جو حکمرانوں میں مفقود۔ اُنہوں نے کبھی اپوزیشن کے خلاف آگ اُگلتے ہوئے سوچا کہ
تنقید حالِ غیر پر کرنے سے پیشتر خود کو نگاہِ غیر سے دیکھا کرے کوئی
حکمرانوں کا دعویٰ تو ”ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا لیکن حال یہ کہ تنقید کا ایک لفظ برداشت نہیں۔ وہ تو وہی سننا چاہتے ہیں جوحواری اُن کو سناتے ہیں، خلقِ خُدا کی غائبانہ صدا اُن کے کانوں تک گرتی ہی نہیں، پھر بھی دعوے ریاستِ مدینہ کے۔
میں کسی کو قائل یا مائل کرنے کی تگ ودَو میں نہیں لیکن ریاستِ مدینہ میں تو کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ امیرالمومنین کو جسم ڈھانپنے کے لیے بیت المال سے صرف ایک ہی چادر ملتی تھی۔ امیر، امیرتر اور غریب، غریب تر نہیں ہو رہا تھا۔ خلفائے راشدین کا پروٹوکول اور حفاظتی دستے نہیں تھے۔ (سیکولر بھائیوں سے معذرت کے ساتھ) کہیں ایسا تو نہیں کہ اسلام واقعی مکمل ضابطۂ حیات ہو جسے ہم بھلا بیٹھے۔ سیکولر بھائی کہتے ہیں کہ قُرآن مجید میں کہیں اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات نہیں کہا گیا۔ بجا مگر جو کتاب معاشی و معاشرتی، سیاسی و سماجی، نجی وخانگی، جزاء وسزا، حتیٰ کہ لین دین تک کے سارے اصول مرتب کر دے، کیا اُسے مکمل ضابطۂ حیات کے سوا بھی کچھ کہا جا سکتا ہے؟۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ جس رَبّ ِ لَم یَزل نے یہ اصول وضوابط مرتب کیے، اُسی نے حضورِاکرم ۖ کی حیاتِ طیبہ کی صورت میں عملی نمونہ بھی پیش کر دیا۔ فرمایا ”تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے” (الاحزاب ٢١)۔ کیا جدیدیت کے علم بردار کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہیں جس میں کسی ”اِزم” کا عملی نمونہ بھی دکھایا گیا ہو۔ اگر سیکولر بھائیوں کو ”مکمل ضابطۂ حیات” جیسے الفاظ سے چِڑ یا پریشانی ہے تو کم از کم یہ تسلیم تو کریں کہ دینِ مبیں نے ایسے روشن اصول دیئے ہیں جن کی خوشہ چینی اہلِ مغرب نے بھی کی۔ وہی اہلِ مغرب جن کی جدیدیت کا طوقِ غلامی سجائے ہم اتراتے پھرتے ہیں۔
تحقیق کہ آج بھی دینی علم رکھنے والے صاحبانِ فکرونظر موجود لیکن خال خال اور شاید گوشۂ تنہائی میں۔ بَدقسمتی سے ہم نے دین اُن علماء کو ٹھیکے پر دے رکھا ہے جن کی بے بصیرتی اور بے بضاعتی کا یہ حال کہ واجبی سا دینی علم رکھنے والے بھی علماء بن بیٹھے۔ جہاں جُہلاء کے جلوس کو علماء سے متصف کر دیا جائے، وہاں لبرلز اور سیکولرز کا جادو تو سَر چڑھ کے بولے گا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ۖ تک دین تو ایک ہی، اسلام، صرف اسلام جس میں فرقوں کی کوئی گنجائش نہیں لیکن یہاں فرقے بیشمار۔ فکر ونظر کی یہی کجی ہمارے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں ہونے دیتی اور ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ خود اُس فرقانِ حمید کا مطالعہ کر سکیں ”جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں” ۔ کبھی گہری نظر سے کتابِ مبیں کا مطالعہ کرکے تو دیکھیں، آپ کو ایک الگ دنیا ہی نظر آئے گی۔ سیّد مودودی نے تفہیم القرآن کے دیباچے میں لکھا ”اگر قُرآن پڑھتے وقت کسی مقام پر کوئی سوال کھٹکے تو اُس پر اُسی وقت فیصلہ نہ کر بیٹھیں بلکہ اُسے نوٹ کر لیں اور صبر کے ساتھ مطالعہ جاری رکھیں۔ اَغلب ہے کہ آگے کہیں نہ کہیں اِس سوال کا جواب مل جائے گا۔ اگر پہلے مطالعے کے دوران کسی سوال کا جواب نہ ملے تو صبر کے ساتھ دوسری بار پڑھیں۔
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ دوسری بار کے غائر مطالعہ میں شاذونادر ہی کوئی سوال باقی رہ جاتا ہے”۔ اِسی دیباچے میں مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ جو گہرائی میں اُترنا چاہے اُس کے لیے دوچار بار مطالعہ بھی کافی نہیں ہوگا کیونکہ ہر مطالعہ کے بعد نئے اسرار ورموز سامنے آتے ہیں۔ مکرر یہ کہ ہمارے پاس اتنا وقت کہاں۔ یہ قوم کی عظمتِ رفتہ کا نوحہ نہیں، حال کی حقیقت ہے کہ دَورِ جدید میں ہمارے ہاں خود شناسی اور خوداحتسابی کا رواج ہی نہیں۔ انسان کی خودغرضی اور جارحیت پسندی نے یہ دن دکھائے کہ امن وسکون غارت اور الفت ومحبت مفقود۔اگر ہم اپنی عظمتِ رفتہ کے طلب گار ہیں تو ہمیں بہرحال حکمت کی رفیع الشان کتاب قُرآنِ مجید فرقانِ حمید سے رَہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔