تحریر : شہزاد حسین بھٹی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ستم ضریقی ہی رہی کہ اس ملک پر اشرافیہ کا قبضہ رہا اور انہوں نے تمام تر قوانین اور اقدامات اپنے مفادات کے تحت اُٹھائے۔ ہر دور میں ہونے والی مردم شماری میں ٹال مٹول کیا جاتا رہا۔ آباد ی کا اژدھا بڑھتا رہا اورموجودہ صوبوںپر آبادی کا بوجھ اضافی بوجھ پڑتا رہا جس کی وجہ سے صوبوں کے دور افتادہ علاقوں کو نظر انداز کرنا ایک معمول بن گیا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 13 کروڑ نفوس پر مشتمل صوبہ پنجاب میں آبادی کا تناسب بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ہر دور میں آنے والے پنجاب کے حکمرانوں نے لاہور ڈویثرن کو ہی پنجاب صوبہ کا درجہ دیا اور ان ہی علاقوں میں صوبائی نشتوںکے حصول کی خاطر ترقیاتی کام کروائے اور ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں، یورنیورسٹیوں اور سڑکوں کا جال بچھائے۔ چھوٹے چھوٹے نالوں پر بڑے بڑے پل باندھ دئیے گئے جن پر اشرافیہ کی گاڑیاں فراٹے بھرتے نظر آئیں گی ۔لاہور کو ہی صوبہ پنجاب سمجھا گیا اور پیر س بنانے کی خاطر اس کی تاریخی حیثیت کو بھی پامال کر دیا گیا۔
لاہور کی ترقی دیکھ کر جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار کے علاقوں میں بسنے والے عوام نے یہ محسوس کر نا شروع کر دیا کہ اُن کے علاقوں پر خرچ ہونے والے فنڈز کو علاقائی ایم این ایز کے تعاون سے ن لیگ نے لاہور کے لیے رکھ لیا اور ان پسماندہ علاقوں کو میٹرو کا لالی پاپ دے دیا گیا۔ پنجاب کے دیگر گئی خطوں کی طرح خطہ پوٹھوہار کو بھی ہر دور میں سخت نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے اس خطہ کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوا ، پسماندگی بڑھتی گئی۔ تعلیمی اداروں اور صحت کے شبعوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ بڑے شہروں کو ملانے والی چند سٹرکوں اور روڈز کے علاوہ دہی علاقوں کو جانیوالی چھوٹی سٹرکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے “پکی سٹرکیں اور سوکھے پینڈے”بھی آٹے میں نمک ثابت ہوئے اور آنے کا مداوا نہ ہو سکا۔
خطہ پوٹھوہار کے لوگوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے صوبائی دارلحکومت لاہور کے سول سیکٹریٹ میں جا کر دھکے کھانے پڑتے ہیں جہاں پر ان کی شنوائی تک نہیں ہوتی اور مسائل کے لیے لکھی جانے والی درخواستیں اول تو ردی کی ٹوکری کا ایندھن بن جاتی ہیں اور خوش قسمتی سے اگر واپس بھی آ بھی جائیں تو مہینوں لگتے ہیں تب تک یا تو مسئلہ ختم ہو جاتا ہے یا پھر مسائل۔ خطہ پوٹھوار کے لوگوں کو صوبائی درالحکومت میں جانے کے لیے ذہنی کو فت اور مالی وسائل دونوں کا مسئلہ ہی درپیش ہوتا ہے۔ دُنیا بھر کی حکومتیں لوگوں کو ان کے مسائل کے حل کے لیے آسانیاں فراہم کر رہی ہیں اور آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئے ڈویژن اور صوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت اور افغانستان کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ خطہ پوٹھوہار کے لوگوں کا یہ مطالبہ کافی عرصے سے متواتر کے ساتھ اخبارات میں سامنے آ رہا ہے، جس میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبہ کے قیام کی ضرورت کا احساس دلایا جا رہا ہے۔ اور اس سلسلے میں ملک امریز حیدر کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔
Supreme Court
سپریم کورٹ کی مردم شماری کے بارے کیس اور حکومت کی طرف سے نئی مردم شماری کے لیے پندرہ مارچ کی تاریخ کے بعد پوٹھوہار کے علاقہ کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ خطہ پوٹھوہار کو علیحدہ صوبہ بنا کر راولپنڈی کوصوبائی دار لحکومت بنایا جائے تاکہ جہلم،میانوالی، چکوال، اٹک، راولپنڈی اورکلرسیداں کے دورافتادہ علاقوں کے باسیوں کو اُن کے مسائل کا حل ان کی دہلیز پر مل سکے اور ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکے۔ مردم شماری کی نوید سے لوگوں میں نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ خطہ پوٹھوار کے پسماندہ علاقوںکے باسیوں کا شکوہ ہے کہ تمام ترقیاتی فنڈز لاہور، ملتان اور گردونواح میں خرچ کیے جاتے ہیں اور ہمارے علاقے کو سخت نظر انداز کیا جاتا ہے۔
صوبہ پوٹھوہار کے قیام سے اس خطہ کے باسیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو گا۔ اور انکی آنے والی نسلیں ان مسائل سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں گی۔ جن کا شکار ان کے آباو اجداد رہے۔ اس خطہ کے باسی اشرافیہ سے سوال کرتے ہیں کہ لاہور ڈویژن ،ملتان ڈویژن میں یونی ورسٹیوں اور ہسپتالوں کا قیام آئے روز ہو رہا ہے مگر پوٹھوہار کے باسی بغیرعلاج کے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جانیں دینے پر مجبور ہیں۔ اور انکے بچے اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم۔
یہ محرومیاں آخر کب تک ان کا مقدر رہیں گی۔ آباد ی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے صوبہ پوٹھوہار کا قیام وقت کی ناگزیر ضرورت ہے تاکہ منصفانہ او ر شفاف فنڈز کا استعمال ممکن ہو سکے اور اس مطالبہ کو حکومت کو ماننا پڑے گا۔ آج نہیں تو کل عوام میں سلگتی ہوئی چنگاری شعلوں کا روپ دھارلے گی اور یہ مطالبہ زور پکڑتا جائے گا۔ اشرافیہ اپنی من مرضیوں کو ایک طرف رکھ کر اس پر سنجیدگی سے غور کرے اور اس صوبہ کے قیام کوعملی جامع پہنائے۔ ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں عدل کوبھی اب صاحب اولادہونا چاہیے