تحریر : عتیق الرحمٰن رشید سانحہ ماڈل ٹاؤن کئی جہتوں سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور اچھوتا واقعہ ہے جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی. قانونی بیرئیر ہٹانے کے نام پر حکومت نے ماڈل ٹاؤن میں اتنا بڑا آپریشن کیا کہ اس میں ڈی آئی جی اپریشن، 7 ایس پی اور پولیس کی کئی سو افراد شامل تھے اس ریاستی دہشتگردی کو پاکستانی ہی نہیں بین الاقوامی میڈیا نے بھی 11 گھنٹوں تک براہ راست دکھایا لیکن حکومت پھر بھی ڈھٹائی سے خون خرابہ کرتی رہی. اس دہشت گرانہ حملہ اور اس پر خاموشی کی صورت میں ریاستی اداروں کا کردار بھی باعث شرم ہے. تاریخ میں پہلی بار چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ اس ریاستی دہشتگردی میں خواتین اور بزرگوں کو بھی بد مست آمر نے نشانہ بنایا اور موت کی نیند سلا دیا. ایف ائی آر بھی مقتولین کے خلاف کاٹی گئی اور انہیں گرفتاری اور کیسوں کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان عوامی تحریک نے ایف آئی آر کے اندراج اور انصاف کے حصول کے لیے تاریخ ساز 70 دن کا دھرنا دیا. دھرنے سے روکنے کے لیے حکومت نے پورے پنجاب میں نیم کرفیو نافذ کردیا، کئی روز تک پاکستان عوامی تحریک کے سیکریڑیٹ کا محاصرہ کئے رکھا اور عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا اور بہت بڑی تعداد میں مقدمات قائم کئے گئےـ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے جو ہاتھ لگا انہیں گرفتار کر لیا گیا جو ہاتھ نہ لگا انکے گھروں پر پولیس کا پہرہ لگا دیا گیا، کارکن فیملی سمیت یا تو ماڈل ٹاؤن آگئے یا رشتےداروں کے گھروں میں پناہ لے لی.
کسی مہذب معاشرہ میں پہلی بار مقتولین کی ایف آئی آر آرمی چیف کی مداخلت سے درج ہوئی. پاکستان میں پہلی بار مقتولین نے حکومتی دباؤ اور پیسے کی آفر کو ٹھکرا دیا. انصاف کے حصول کےلیےکراچی تا کشمیر ہزار سے زائد مظاہرے اور احتجاجی جلوس نکالے گئےـ اس بین الاقوامی اہمیت کے حامل کیس میں عدالت نے خود سے کوئی کاروائی نہیں کی نہ ہی سو موٹو ایکشن لیا گیا اور نہ ہی حکومت وقت کی دہشتگردی کا شکار عوام کو انصاف کی صورت میں کوئی رلیف دیا گیاـ
یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے جسے پاکستان عوامی تحریک اور اسکے کارکنوں نے ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود زندہ رکھا ہوا ہے اور حکومت وقت اور اداروں پر پریشر ڈال رہی ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائےـ
عوامی تحریک نے نہ صرف شہداء کے ورثا کا خیال رکھا بلکہ زخمیوں کا علاج کروایا اور انکی دادرسی بھی کی، وہ تمام مقدمات جو ورکرز کے خلاف بنائے گئے تھے وہ بھی لڑے اور کارکنوں کی ضمانت بھی کروائی-
وزیراعلی پنجاب کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس باقر نجفی کمیشن بنایا جسکی رپورٹ پر تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کیونکہ اس رپورٹ میں حکومت وقت اور پولیس کے اعلی افسران کو ملوث کرار دیا گیا تھاـ
حکومت نے قتل عام اور باقر نجفی کمیشن کے داغ کو دھونے کے لیے اپنے مرضی کی جے آئی ٹی تشکیل دی تاکہ اس سے کلین چٹ حاصل کی جائےـ
اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان عوامی تحریک نے 15 مارچ 2016 کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں استغاثہ دائر کیا جسمیں 56 زخمیوں اور چشم دید گواہوں نے بیانات قلمبند کئے یہ کاروائی کافی طویل تھی جسکے دوران پاکستان عوامی تحریک نے نہ صرف وکلاء کا انتظام کیا بلکہ گواہوں کی بروقت ہر پیشی پر عدالت میں موجودگی کو بھی یقینی بنایا جبکہ حکومت نے ہر دباؤ اور حربہ استعمال کیا تاکہ گواہان اور پاکستان عوامی تحریک کو حراسا کیا جائےـ
7 فروری 2017 کو انسداد دہشتگردی عدالت نے 124 پولیس والوں کو طلب کیا لیکن وہ افراد جن کے حکم پر یہ کاروائی کی گئی تھی جس کی نشاندہی جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں بھی کی گئی طلب کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی، ان 124 پولیس والوں میں سے 105 ہی عدالت میں پیش ہوتے رہے جبکہ اعلی پولیس افسران جن کو حکومت نے ملک سے فرار یا بیرون ملک پوسٹ کردیا تھا مسلسل عدالت کی حکم عدولی کے مرتکب ہوتے رہے اس کے باوجود انکے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی۔
پاکستان عوامی تحریک نے جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو انسداد دہشتگردی عدالت میں جاری استغاثہ کا حصہ بنانے کے لئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 94 کے تحت درخواست دی جسے خارج کردیا گیا جس کے خلاف پاکستان عوامی تحریک نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا یہاں بھی مظلوموں کی دادرسی نہ ہوئی اور اب سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے-
استغاثہ کیس کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک نے دسمبر 2014 میں ایک درخواست کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی کہ باقر نجیف کمیشن کی رپورٹ کو شائع کروایا جائے، جہد مسلسل سے بینچ تشکیل دیا گیا اور دلائل سنے گئے لیکن فیصلہ آنے سے پہلے ہی بینچ کے سربراہ ریٹائر ہوگئے لگاتار کوششوں کے بائث دوسرا بینچ بنایا گیا جسکی آخری سماعت دسمبر 2014 میں ہوئی اور تاحال کوئی نئی تاریخ یا فیصلہ نہیں دیا جارہا. اس سال شہیدوں کے لواحقین کے ذریعے ایک اور رٹ فائل کی گئی سنگل بینچ کا فیصلہ عوامی تحریک کے حق میں آیا توحکومت نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا. عدالت نے تین رکنی فل بینچ تشکیل دیا جس نے حکومتی رٹ خارج کردی اور جسٹس باقر نجفی رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ سنا دیا. پاکستان عوامی تحریک نے حکومت پر پریشر برقرار رکھا اور حکومت کو رپورٹ پبلک کرنا پڑی. یہ پاکستان عوامی تحریک کی قانونی محاذ پر ایک بڑی کامیابی ہے اور حکومت اس وقت پریشر میں نظر آرہی ہے۔
پاکستان میں انصاف کے اداروں کی صورت حال سے ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے اور اگر کسی کیس میں نامزد ملزم حکومتی اعلی شخصیات ہوں اور وہ تمام حکومتی مشینری کے ذریعے انصاف کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہوں تو کوئی بھی زی شعور انسان پاکستان عوامی تحریک اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کی مشکلات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں، پاکستان عوامی تحریک تین سال سے زائد عرصہ سے حکومتی ظلم اور اداروں کی بے رحمی کا شکار ہے لیکن حالات و واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے اداروں میں وہ ہمت نہیں کہ وہ حکومت وقت کے خلاف فیصلہ دے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ حکومت اور اسکے حواری یہ پروپیگنڈہ بھی کرتے ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادی ماڈل ٹاؤن کا انصاف حاصل نہیں کرسکے اور کچھ باشعور افراد بھی حکومتی زبان بولنا شروع ہوجاتے ہیں کوئی انسے پوچھے کہ مقتولین کو انصاف دینا عدلیہ کا کام ہے نہ کہ عوامی تحریک کا، یہ ریاست پاکستان اور اسکے تمام اداروں پر ایک قرض اور انکا فرض ہے. ظالم حکومت کے ہوتے ہوئے کسی فرد یا جماعت کا حق کے لیے کھڑا رہنا پاکستانی معاشرہ میں ناممکن ہے لیکن یہ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت اور کارکنان ہی ہیں جو کہ اس نا ممکن کو ممکن بنا رہے ہیں ورنہ بڑی پارٹیاں اور طاقتور احباب وسائل اور اختیارات ہونے کے باوجود بھی انصاف حاصل نہیں کرسکےاور نہ ہی اپنے لیڈر و کارکنان کے لیے انصاف کی بات ہی کرتے ہیں۔
جنگ عظیم درم کے موقعہ پر چرچل نے کہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں لندن شہر کا بڑا حصہ کھنڈر بن چکا تھا۔ ملاقاتیوں کے ایک وفد نے وزیر اعظم چرچل کو بتایا کہ بمباری نے بہت تباہی مچا دی ہے۔ چرچل نے اچانک ایک عجیب اور غیر متعلقہ سوال پوچھ لیا: مجھے بتاؤ، کیا ملک کی عدالتیں صحیح کام کر رہی ہیں؟ حیرت زدہ ملاقاتیوں نے کہا، جی ہاں وہ بالکل ٹھیک کام کر رہی ہیں۔ چرچل نے کہا، پھر فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا ملک بچ جائے گا، اور ہم اس جنگ میں سرخرو ہوں گے۔
صد افسوس کہ اب تک ہم پاکستان میں نہ ہی برابری کا نظام قائم کرسکے اور نہ ہی ہمارے معاشرے میں غریب کو انصاف ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ ریاست پاکستان آج ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔