ریاستِ مدینہ کا حاکم عمر بن خطاب رض تھے کہ ایک خط موصول ہوا جس میں اسلامی لشکر کے ایک سپاہی نے اپنے کمانڈر کی شکایت کی ہوئی تھے کہ ہم جنگی مشقیں کر رہے تھے راستے میں ایک برساتی نالہ آگیا۔کمانڈر نے حکم دیا کو کوئی تیراک ڈھونڈا جائے ۔ کافی کوشش کے بعد ایک بزرگ یہودی تیراک کو لایا گیا اور اسے حکم دیا گیا کہ اس نالے میں کود کر اسکی گہرائی معلوم کرو۔ بوڑہے نے عرض کی کہ جناب میں تیراکی ضرور کرتا تھا مگر اب بوڑھا ہو چکا ہوں اب یہ کام چھوڑ چکا ہوں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ مجوََرا بوڑہے کو کود نا پڑا اور وہ پانی کا مقابلہ نہ کر سکا اور ڈوبتے ڈوبتے پکارنے لگا یا امیر المومنین عمر بن خطاب میرے مدد کیجیے۔ عمر بن خطاب مسجد کے صحن کی طرف دوڑے اور فرمرہے تھے کہ میں ابھی آیا، میں ابھی آیا۔
ریاستِ مدینہ کے حاکم عمر بن خطاب نے اس بوڑہے کے ورثاء اور اس کمانڈر کو بلا لیا اور اپنی ہی ریاست کے ایک اہم فرد پر فرد جرم عائد کی اور اس بوڑہے کہ ورثاء کو یہ حق بھی دیا کہ اگر تم چاہو تو اسے سزا دلوادو اور اگرا چاہو تو معاوضہ لے لو۔ یہ وہ ریاست مدینہ تھے جسمیں ایک یہودی لڑکی کو کچھ عیاش لڑکوں نے زد و کوب کرنے کی کوشش کی تو بلا جھجک پکارنے لگی کی اے امیر المومنین عمر بن خطاب میری مدد کیجئے۔یہ وہ ریاست مدینی تھی کی جسکے حاکم عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ اگر دریائِ فیراط کے کنارے ایک کتہ بھی بھو کھا مر گیا تو عمر سے اس کا سوال ہو گا۔
اور ایک نام نہاد ریاست مدینہ یہ ہے جس میں تیرہ سالہ بچی کو بشمول اس کے والدین انتہائی سفاکیت کے ساتھ شکوک کی بنیاد پر ریاستی ادارے کی طرف سے قتل کر دیا جاتا ہے اور بچ جانے والے تین چھوٹے بچوں کو بے یار و مددگار قریبی پٹرول پمپ پر چھوڑدیا جاتا ہے۔ اور ریاستی ادارے کی طرف سے مئوقف یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جی یہ لوگ دہشتگرد تھے۔ یہ اعزاز بھی اس نام نہاد ریاست مدینہ کو ہی حاصل ہے کہ واقعہ کے فوری بعد حکومتی وزراء کو الہام ہوتا ہے اور وہ قبل از تحقیق عوام کو آگاہ کرتے ہیں جناب ہمارے عمدہ ترین ادارے سی۔ٹی۔ڈی۔ کا مئوقف بالکل درست ہے یہ واقع ہی دہشتگرد تھے۔ ظاہر ہے ریاست مدینہ کے نما ئندگان ہیں اللہ کے ہاں اتنے مکرم تو ضرور ہوں گے کہ قابل الہام ہوں۔
انکی کم ظرفی ، نا اہلی اور بے ضمیری کا یہ عالم ہے کہ صوبے کا وزیرِ اعلی مقتولین کے بچوں کے پاس پھولوں کا گلدستہ لیکر پہنچتا ہے کہ بیٹا یہ ہماری طرف سے آپ کے والدین کے قتل عام پر آپ کیلئے تحفہ ہے کیونکہ ہمارے ریاستی ادارے نے انتہا ئی جا ںفشانی کے ساتھاآپ کے والدین کو آپ کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیااو ر مزے کی بات یہ ہے کہ ایف ۔آئی ۔آر بھی نا معلوم افراد کے خلاف کٹی ہے۔
یقین کیجئے کہ یہ تو وہ واقعہ ہے جو رپورٹ ہو گیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سے ایسے واقعات رو نماء ہوتے ہیں کہ جن میں کئی مائوں کی گود، سہاگنوں کے سہاگ، بہنوں کے سر سے دستِ شفقت اور چھوٹے بچوں سے شفقت پدری کو اسی سفایت کے ساتھ چھین لیا جاتا ہے، جے۔آئی۔ٹی بنتی ۔ہے اوربا لآخر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فائل بنام با معلوم افراد بند کر دی جاتی ہے۔
مگر انکی بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی اوربات کرتے ہیں اس ریاست مدینہ کی جو آج تک اقوام عالم کیلئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دعوے سے پہلے انکو شرم سے ڈوب مر جانا چائیے کہ انکے کردار کیا ہیں اور یہ باتیں کیا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ
ایک نالائقوں اور ذہنی طور پر مفلوج لوگوں کا ایک ٹولہ ہے جسکو ریاست مدینہ کے نام پر ہم بد قسمت لوگوں پر مسلط کر دیا گیا ہے جن کے نزدیک اس نام نہاد ریاست مدینہ کا سربراہ ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ ہاتھ میں تسبیح پکڑ لو اور دعوای کردو حاکم ِ ریاست ِ مدینہ کا۔ اگر چہ آپ ریاست مدینہ کے بنیادی تقاضوں سے بھی نا آشناء ہوں۔
Imran Khan
بہر حال قارین اکرام لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر الفاظ ساتھ نہیں دے رہے، آنکھیں اشکبار ہیں کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود آخر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ جن حکمرانوں کے ہم محکوم ہیں ا ن کا طریق ئہی رہا ہے ۔اور کئی کیسوں کی طرح اس کیس میں بھی خلیل کے ورثاء کو انصاف ملنا تو بہت مشکل ہے البتہ جانوں کے عوض انکی جانوں کی بولی ضرورلگائی جائے گی اور قیمت ادا کر کے معاملہ ختم ہو جائے گا کیونکہ حکمرانوں اور متعلقہ حکام کے اس امر نے شاید اس معاملے کے منطقی انجام کا عکس اس وقت کھینچ دیا جب رپورٹ نا معلوم افراد کے خلاف کٹی۔ اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں ، پسماندگان کو صبر، عوام کو شعور اور حکمرانوں کو ضمیر عطاء فرمائے۔(آمین)