پی ٹی آئی حکومت کے 6 مہینے پورے ہونے سے پہلے ہی اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے حکومت کیخلاف اتحادکرلیا ہے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی گذشتہ تیس سالوں سے ملک میںباری باری حکومت اور اپوزیشن میں رہی ہیں دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں ایک دوسرے کیخلاف نہ صرف مختلف نوعیت کے مقدمات اور کیسز بنانے کیساتھ محاذ آرائی بھی جاری رکھی پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار کے دوران میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کیخلاف مقدمات بنائے اور مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کیخلاف مقدمات قائم کیے گئے لیکن دونوں ہی پارٹیوں نے ان کیسز اور مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بجائے کرپشن کے ان کیسز اور مقدمات کو اپنے اپنے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کیخلاف بلیک میلنگ کے لیے فائلوں تک ہی محدود رکھا احتساب کے اداروں نیب،ایف آئی اے وغیروں کو قابو میں رکھنے کے لیے ان اداروں میں اپنی مرضی کے لوگ لگائے۔
دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر لوٹ مار اور کرپشن کے الزامات لگاتی رہیں آصف زرداری اور میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کی ایک دوسرے کیخلاف لفظی گولہ باری کی جنگ عروج پر رہی شہباز شریف اکثر کہتے کہ وہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹ مار کی دولت واپس لیں گے اسی طرح آصف زرداری بھی شریف برادران پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ لیکن دونوں طرف سے کبھی ایک دوسرے کیخلاف کوئی عملی قانونی کاروائی نہیں کی گئی اسے کبھی میثاق جمہوریت اور کبھی مفاہمت کی سیاست کا نام دیا گیا جس کے اتحت ایک دوسرے کی کرپشن اور لوٹ مار کا تحفظ کیا جاتا رہا۔25 جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی ملی اور عمران خان وزیراعظم بن گئے ان کا نعرہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب کرکے ملک کو کرپشن فری پاکستان بنانا تھا برسر اقتدار آنے کے بعد عمران خان کی حکومت نے قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کرنے کے اپنے عزم کو نہ صرف کئی بار دہرایا۔
عدالتوں اور احتساب کے اداروں میں احتساب کاعمل جاری کیا اس کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دور کے قائم کردہ کیسز اور مقدمات پرکاروائیاں تیز کردیں یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ عمل بھی سست روی اور پیچیدگیوں کا شکار ہے لیکن ماضی میں برسراقتدار رہنے والے طاقتور لوگوں کو کرپشن اور لوٹ مار کے کیسز میں عدالتوں اور احتساب کے اداروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایسا ملک میں پہلی بار ہورہا ہے ورنہ تو کوئی ان کو پوچھنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا تھا اب ایسا ہو رہا ہے توکرپشن اور لوٹ مار میں ملوث طاقتور لوگوں کو ناگوار گذر رہا ہے اس پر یہ لوگ حکومت کیخلاف متحد ہورہے ہیں ماضی میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والے حریف اور دشمن احتساب کے خوف سے آپس کی ساری رنجشیں اور اختلافات بھلا کر راتوں رات حلیف اور دوست بن رہے ہیں اس سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیںلیکن پی ٹی آئی حکومت کے لیے کرپشن کیخلاف احتساب کے نعرے سے پیچھے ہٹنا اس کی سیاسی موت کے مترادف ہوگا اس صورت حال میں ملک کی سیاسی صورتحال کس طرف جاتی ہے اس کا اندازہ اگلے چند ہفتوں میں ہوجائے گا کیونکہ ایک طرف اگر اپوزیشن حکومت کیخلاف گھیرا تنگ کرنے پر کمر بستہ ہے تو دوسری طرف حکومت کی اتحادی جماعتوں اور پی ٹی آئی کے درمیان بھی اختلافات سامنے آرہے ہیں لیکن خیال ہے کہ حکومت اپنے اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
کیونکہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ابھی حکومت کیخلاف اپوزیشن کی کوششوں کی کامیابی کے چانسز اگر بہت کم ہیں عوام کی خواہش ہو گی کہ وہ نئی حکومت کی کارکردگی دیکھنے کے لیے کم از ایک دو سال انتظار کریں لوگ ابھی یہ نہیں چاہیں گے کہ انھوں نے جس حکومت کو منتخب کیا ہے اس کیخلاف چھ مہینوں بعد کوئی احتجاج کیا جائے تو دوسری طرف موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ ق کا اپوزیشن کیساتھ چلنا مشکل ہے خاص طور پر مسلم لیگ ن کیساتھ مسلم لیگ ن کا نبھاہ اگر ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ہے حکومت کی اہم اتحادی جماعت ایم کیوایم کا ماضی بھی یہی بتاتا ہے کہ وہ ہمیشہ حکومت کیساتھ ہی رہی ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بظاہر حکومت کو اپنے اتحادیوں کے چلے جانے کا فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں لیکن اسے اپنی اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے ان کے ناز نخرے اٹھانا پڑیں گے۔
ان حالات میں اپوزیشن کو حکومت کیخلاف ابھی کوئی کامیابی ملنے کاامکان نہیں کیونکہ کسی بھی حکومت کی کارگردگی جانچنے کے لیے اسے کم از کم دو سال دینے کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے قائدین اتحاد کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ اپوزیشن کا یہ اتحاد حکومت گرانے کے لیے نہیں تو اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد احتساب کی راہ روکاوٹ ڈالنے کے لیے ہے ورنہ سردست ان کا کوئی واضع ایجنڈہ نظر نہیں آتا۔اس کیساتھ یہ بھی بڑی روشن حقیقت ہے کہ حکومت ابھی تک عوام کو کوئی خاطرخواہ ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور نہ ہی اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے کوئی قابل ذکر قانون سازی کر سکی ہے۔
کیونکہ قانون سازی کے لیے اس کے پاس پارلیمنٹ اور سینٹ میں مطلوبہ اکثریت ہی نہیں دوسری طرف ملک بھر میں گیس کا بحران ہے جبکہ بزنس سیکٹر میں بھی عدم استحکام نظر آتا ہے سٹاک ایکسچینج تاحال مسلسل گر رہی ہے اس کے باوجود حکمران مسائل پر قابو پانے میں پرعزم نظر آتے ہیں خاص طور پر وزیراعظم عمران خان ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرکے کرپشن فری پاکستان بنانے کے وعدے پر ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے یہی وہ بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن عوام کی اکثریت ملک سے کرپشن کے خاتمے اور قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کرنے کے لیے حکومت کے ایجنڈے کی حامی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایسے حالات اور اپنے محدود مینڈیٹ میں رہتے ہوئے اپنے نعروں اور وعدوں پر کس طرح عملدرآمد کرتے ہیں؟