تحریر: اے آر طارق افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی،ڈی جی رینجرز اور آرمی چیف کے حوالے سے سخت زبان کا استعمال ،سنگین نتائج کی دھمکیاں، ملکی سلامتی کے برعکس بیان بازی اور ملکی سلامتی کے اداروں کو مخاطب کرکے کھلا چیلنج دینا،پاکستان مردہ آباد کے نعرے اور پاکستان دنیا کے لیے عذاب اور ناسور ہے، جیسے کلمات کی ادائیگی، آزادی حق رائے کی آواز کو دبانے کے لیے یہ کہنا”جس ٹی وی چینل پر الطاف بھائی کی تصویر نشر نہیں ہوتی ،اس کو توڑا کیوں نہیں”کی ترغیب اور اشتعال دلا کر نجی چینلز پر حملہ کروانا ،نظریہ پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی۔
یہ وہ الفاظ ہے جو الطاف حسین نے 22 اگست کوایم کیو ایم کے ورکرزکنونشن سے اپنے خطاب کے دوران کہے۔ان کو ملکی سلامتی کے اداروں،سربراہان کے خلاف اکسایا،ملکی وقار اور سا لمیت کی دھجیاں بکھیری گئی،نجی چینل پر حملہ کرنے پر زور دیا گیا،اور سب سے بڑھ کر یہ ستم کہ ملک اور نظریہ پاکستان کے خلاف ملک دشمنی پر مبنی زبان استعمال کی گئی،یہاں تک کہ پاکستان مردہ آباد بھی کہا اور کہلوایا۔الطاف حسین کی تقریر کے ختم ہوتے ہی ورکرز ایم کیو ایم نے کراچی میں افراتفری، ہلچل،بدامنی پھیلادی،سڑکوں پر موجودوہاںکھڑی متعدد موٹر سائیکلز،ایک پولیس وین اور اے آر وائی کی ڈی ایس این جی کو آگ لگا دی،کاروں کو توڑاگیا اور بسوں کے شیشے توڑے گئے۔ آزادی حق رائے کی آواز کو دبانے کے لیے اور بہترین صحافتی خدمات سر انجام دینے پر اورحق کی صدا بلند کرنے والے نجی چینلز کے دفاتر پر حملہ کیا گیا،دفاتر میں موجود سی سی ٹی وی کیمروں کو ناکارہ بنادیا گیا ،جو بچ گئے ،ان کی ریکارڈنگ ساتھ لیجانے کی کوشش کی گئی،سازوسامان کی توڑپھوڑ کی گئی ،کمپیوٹر اور لیپ ٹاپس زمین پر پٹخ کر ٹکر ے ٹکرے کر دئیے گئے،نجی چینلز کے عملے اور سٹاف کو یرغمال بنایا گیا۔
سیکیورٹی گارڈز حتی ٰ کہ پولیس والوں سے بھی اسلحہ چھیننے کی کوشش کی گئی،دکانوں پر لوٹ مار کی گئی ،کئی جگہوں سے کیش لوٹا گیا،نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ،عمارتوں کی کھڑکیاں اور شیشے توڑے گئے،پاکستان اور قانون نافذ کرتے والے اداروں کے متعلق سربازار سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا۔کراچی میں قیام امن کے لیے کی گئی پولیس اور رینجرز کی کوششوں کو دھچکا پہنچایا گیا،کراچی میں قائم امن کی فضاء کو بدامنی اور خوف وہراس میں بدلا،الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی طرف سے شہرقائد میں قیام امن کی کوششو ں کو صرف دھچکا ہی نہیں پہنچایا گیا بلکہ پوری غنڈہ گردی ،بدمعاشی کا مظاہرہ کیا گیا اور ملک دشمنی پر مبنی کردار ادا کیا گیا۔اس ساری صورتحال کو پولیس نے کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر جب پولیس سے حالات کنٹرول نہ ہو پائے تو رینجرز کو طلب کیا گیا ،جس نے حسب روائت پہلے کی طرح کوئیک ایکشن لیا اور ان شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن کیا ۔رینجرز کے آتے ہی دہشت گرد تنظیم کے کارکنان تتربتر ہوگئے، رینجرز نے اس موقع پر ایم کیو ایم کا بھوک ہڑتالی کیمپ(ڈرامہ کیمپ) بھی اکھاڑ کر رکھ دیا۔رات گئے ان شرپسند،دہشتگرد عناصر ،جوشہر کا امن و آتشی کا ماحول خراب کرنے کے درپے تھے ،کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا اور آگ وخون کی ہولی کھیلنے والوں کو حراست میں لیا گیا۔
Karachi
الطاف حسین کی اس تعصب اور اشتعال پر مبنی اس تقریر سے پوری پاکستانی قوم اضطراب کا شکار نظر آئی،لوگ ساری رات ٹی وی چینلز پر کراچی کی خراب صورتحال کا جائزہ لیتے رہے،تاہم خوش آئندہ بات یہ کہ پولیس اور رینجرز نے حالات پر قابو پا لیا ہے،دوسری جانب آرمی چیف کا ڈی جی رینجرز سے کہنا کہ ”کراچی کا امن تباہ کرنے اور آگ لگانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا جائے اور ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے”حوصلہ افزاء بیان تھا،جسے کراچی کی عوام نے بیحد سراہا ۔کراچی کے حالات معمول پر ہیں،بس شرپسندوں سے نمٹناباقی ہے،پولیس اور رینجرز اپنے فرائض پوری فرض شناسی سے سرانجام دے رہی ہے، اب کے بار جوچیز سب سے زیادہ دیکھنے میں آئی ،وہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کراچی امن کے قیام کے حوالے سے کافی متحرک اور سنجیدہ نظر آنا ہے۔ان کا بڑے واشگاف لفظوں میںیہ فرمانا کہ ” کراچی کا امن خراب کرنے اور رینجرز ہیڈکورٹرز کی طرف بڑھنے کی دھمکیاں دینے والوں کو دیکھ لیں گے اورشر پسند عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے ، ان کی کراچی میں قیام امن کے لیے کی گئی حالیہ سنجیدہ کوششوں کا مظہر ہے۔اس ساری افسوس ناک صورتحال پرصدر،وزیر اعظم اور سیاستدانوں کی جانب سے بھی افسوس کا اظہار کیا گیا اور کھلے لفظوں میں اس واقعے کی مزمت کی گئی۔الطاف حسین کی تقریر سب کے سامنے ہے اور کراچی میں ہونے والا واقعہ بھی ،اب تک کی تمام صورتحال دیکھنے کے بعد مزید کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین ملکی کاز کے خلاف کام کررہے ہیں اور ملک دشمن ایجنڈے کی تکمیل میں سرکرداں ہیں،ملک دشمن عناصر کے آلہ کار ہیںاور ان کے لئے کام کررہے ہیں۔
الطاف حسین اور ان کے حواریوں کو ملکی سا لمیت ووقار سے کوئی سروکار نہیں،ماضی میںدورہ بھارت کے موقع پران کا یہ بیان کہ”پاکستان کا بننا ایک ظلم ہے ”ریکارڈ پر موجود ہے ،ہی اس کی ملک دشمنی کے لیے کا فی ہے۔ایسے میں اس کی حالیہ اشتعال انگیز تقریر ،جس میں ملکی سلامتی کے اداروں اور سربراہان کے خلاف غلط زبان کا استعمال،آزادی صحافت کی آواز دبانے کے لیے نجی چینلز پر حملہ اور ملک کی نظریاتی اساس پر سنگ باری کرتے پاکستان مردہ آباد کے نعرے لگاناالطاف حسین او رایم کیو ایم کے مکروہ عزائم اور کارنامے عیاں کرتا ہے کہ وہ کراچی میںامن کے خواہاں نہیں ہیںاور ملکی کاز کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں،کسی بھی رعائت کے مستحق نہیں۔بجائے اس کے کہ ایم کیو ایم کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا اور کراچی حالات میں خرابی پیدا کرنے والے شرپسند عناصرکو حراست میں لیکر مقدمہ چلایا جاتا اور ان پر ان کے ناقابل تلافی جرم کی پاداش میں بقول ڈی جی رینجرز”کراچی میں بدامنی پھیلانے وانے اور آگ لگانے والوں کو ایک ایک سیکنڈ کا حساب دینا ہو گا،کیفرکردار تک پہنچاکر دم لیں گے”۔پہنچاتے،زیر حراست افراد کو چھوڑ دیا گیا۔
عوام تمام ترصورتحال میںرینجرز اور قانون نافذ کرنے والوںاداروں سے یہ توقعات رکھے بیٹھے تھے کہ اب کے بار الطاف کی شرانگیز ،اشتعال پر مبنی تقریر کے بعد الطاف حسین پر مقدمہ چلے گا ،ایم کیو ایم کی قیادت کو حراست میں لیا جائے گا ،اور تمام تر حقائق کا جائزہ لینے کے بعد وسیع ملکی مفاد کے پیش نظرایم کیو ایم کارکنان کو کیفرکردار تک پہنچاتے ہوئے ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے گی،کراچی کا امن بحال ہوگا اور لوگ بغیر کسی ڈر اور خوف کے سکھ اور چین کی زندگی گزاریں گے مگر ایساکچھ نہ ہوا۔ٹی وی چینلز پر چلنے والی سرخیوں اور تبصروں اور ایم کیو ایم کے فاروق ستار کا ساتھیوں سے آواری ہوٹل میں مشاورت کرنے سے صاف لگ رہا تھا کہ کوئی بڑا فیصلہ آنے والا ہے ،تجزیہ کار اپنی اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کر رہے تھے، کوئی کہہ رہا تھا کہ فاروق ستار کا ساتھیوں سمیت پارٹی چھوڑنے کا اعلان ہوگا اور انکی طرف سے الطاف حسین کی مذمت کی جائے گی،کوئی کہہ رہاتھا کہ ایسی کوئی صورتحال نہ ہوگی ،مائنس ون فارمولے پر عمل ہوگا،الطاف حسین کو پارٹی قیادت سے جبرا ہٹا دیا جائے گا۔راقم الحروف بھی فاروق ستار کی پریس کانفرنس کا احوال جاننے کے لیے حتیٰ کہ ”سنیئرصحافیوںسے کیا ہو گا کی معلومات مل چکی تھی،مگر دل کہہ رہا تھا کہ اب کے بار سخت ایشن لیا جائے گا ،فاروق ستار ساتھیوں سمیت پارٹی چھوڑ دیں گے اور ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے گی مگر اس وقت حیرت ہوئی جب فاروق ستار پریس کانفرنس کرنے آئے توان کی باڈی لینگوئج سے محسوس ہوارہاتھاکہ مائنس ون فارمولے پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔
Farooq Sattar
مگر جب فاروق ستار نے اپنی اور پارٹی پوزیشن واضح کرتے ہوئے الطاف بھائی کی مذمت کرنے کی بجائے الطاف بھائی کے خلاف بولتے وقت محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کی پارٹی دستبرداری کا پارٹی فیصلہ سنایا تو اس موقع پرموجود ایک صحافی کے اس سوال کو کہ الطاف کی پارٹی قیادت سے دستبرداری عارضی ہوگی یا مستقل یا پھر ایک ڈرامہ ،کا سوال گول کر گئے۔ابھی میں یہ کالم لکھ رہا تھا کہ ایکسپریس چینل پر 22 اگست کے12pm نیوز بلیٹن میںبھی اور نیچے اسٹیکر میں بھی یہ پٹیاں اور خبر چل رہی تھی کہ جس کے مطابق نسرین جلیل کہہ رہی تھی کہ ” الطاف حسین سے نہیں،ان کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ”۔22 اگست کی شام کی5pm کی فاروق ستار ہمراہ خودکی پریس کانفرنس میں الطاف حسین کی پارٹی سے علیحدگی کی بات اور اب فیصلے پاکستان میں ہونگے کی نفی کر رہی تھی۔فاروق ستار کی گول مول باتیںاور ایم کیو ایم کا نیا قائد کون ہوگا کا مدلل اور واضح جواب نہ دے سکنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دال میں کچھ کچھ کالا ہے،ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ بیانات اپنی پارٹی اور اپنے لوگوں کو بغاوت کے مقدمات سے بچانے کے لیے دیئے ہیں۔
حقیقت میں ان کے دل آج بھی الطاف حسین کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیںاور یہ انہی کو حقیقی معنوں میں اپنا لیڈر تصور کرتے ہیںجس کا اظہار نسرین جلیل رات گئے12 بجے کے نیوز بلیٹن میںکر بھی چکی کہ”الطاف حسین سے نہیں، انکے بیان سے اظہار لاتعلقی کیا ہے”۔ان کی منافقانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اور خود فاروق ستار الطاف حسین کی پارٹی قیادت سے دستبرداری مستقل،عارضی یا محض ڈرامہ پر کوئی بات نہیں کر پائے،کیونکہ ان کو تو خود نہیں پتا کہ کیا ہونا ہے۔اس لیے کہ ایم کیو ایم کی ڈوریںبیرون ملک سے ملک دشمن عناصر کے اشارہ ابرو پر ہلتی ہیں،متحدہ کا کوئی نیا قائد بن بھی پائے گا ؟؟؟کیا الطاف حسین متحدہ کی دستبرداری چھوڑنے کو تیار ہونگے؟؟؟ان سوالوں کا جواب متحدہ کے کسی بھی فرد کے پاس نہیںہے۔یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین کی پارٹی دستبرداری کے اعلان کے بعد پیدا شدہ صورتحال پر سب پریشان اورتذبذب کا شکار ہیں،الطاف کے بعدمتحدہ کاقائد کون ہوگا،کسی کو بھی معلوم نہیںاور نہ ہی کوئی جانتا ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ کا اب کوئی قائد ہوگا بھی کی نہیں،اس کا فیصلہ بھی الطاف حسین ہی کریں گے۔
کسی دوسرے میں ایسا فیصلہ کرنے کی جرات نہ ہے، عامر لیاقت حسین جو متحدہ کے سنیئر رہنما تھے،سمجھتے ہیں کہ متحدہ میں اصل اختیارات الطاف کے پاس ہیں،موجودہ صورتحال میںمتحدہ میں اپنی پوزیشن بہترنہ خیال کرتے ہوئے اور حالات کو اپنے موافق نہ پاتے ہوئے متحدہ سے الگ ہو گئے ہیں اور اس پر خاصے پریشان بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ متحدہ کے حوالے سے اتنے مضبوط کیس کو کمزور کس نے بنایا ہے کہ ہمارے کرتا دھرتا کے بلند بانگ دعووں ”ایک ایک منٹ کا حساب لیا جائے گا”کی کلعی چند گھنٹوں کے بعد ہی کھل کر عوام کے سامنے آگئی،آخر وہ کون سی وجہ تھی کہ ہمارے اداروں کوکہ بجائے جرات دکھاتے ،پسپائی اختیار کرنا پڑی۔یہ وہ سوال ہیں جس کا جواب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینا ہی پڑے گا، آج نہیں تو کل اور بتانا ہو گا کہ اتنے مضبوط کیس کے باوجود پسپائی یہ ہماری ریاستی کمزوری تھی یا مصالحانہ پالیسی کا تسلسل۔