تحریر: ایم سرور صدیقی ہمارے پیارے خادم ِ اعلیٰ نے تازہ ترین ایک بیان میں ارشاد فرمایا ہے میٹرو ٹرین منصوبے کی تکمیل کے لئے میں پہاڑ سے ٹکرا جائوں گا اشرافیہ مہنگی گاڑیوں میں سفر کرتی ہے غریب عوام کا بھی حق ہے کہ وہ میٹرو ٹرین جیسی سستی اور شاندار سواری پر سفر کریں یقینا یہ عزم ِ صمیم خادم ِ اعلیٰ کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے ان کے اس جذبے کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
لاہور کی آبادی اس وقت ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے شنید ہے اورنج لائن میٹروٹرین میں روزانہ ایک لاکھ افراد سفر کریں گے اب سوال یہ پیداہونا یقینی بات ہے کہ کیا لاہورمیں صرف ایک لاکھ غریب بستے ہیں باقی غریبوںکا کیا بنے گا ؟ یا جن روٹ پر یہ مالٹا ٹرین نہیں چلے گی وہاں کے غریب کیا کریں گے؟ یہ ہمارے خادم ِ اعلیٰ نے کیوں نہیں سوچا ان کو اس شاندارسفری سہولیات سے کیونکر محروم رکھا گیا ہے اور پھر سب سے بڑی بات میاں شہباز شریف صرف لاہور کے نہیں الا ماشاء اللہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے خادم ِ اعلیٰ ہیں باقی پورے پنجاب کے غریبوں کا کیا قصور کہ وہاں میٹرو نہیں چلائی جارہی خدارا اس بارے بھی غور فرمائیں آپ کی تھوڑی سی توجہ سے بہتوںکا بھلا ہو جائے گا۔
اس وقت پنجاب کو جو مسائل درپیش ہیں اس میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ سرفہرست ہے پینے کا پانی اس قدرآلودہ ہو چکاہے کہ ہر تیسرا چوتھا فرد یرقان ، معدے ،پیٹ اور جگرکی بیماری کا شکارہے مناسب علاج اور طبی سہولیات نہ ہونے سے لوگ نہ جانے کن کن بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں خود وزیر ِ اعظم میاں نواز شریف اکثر معدے کی بیماری کا علاج لندن سے کروانے جاتے رہتے ہیں اور خادم ِ اعلیٰ بھی کمردرد کا علاج بیرون ِ ملک کرواتے ہیں۔۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان میں اس پائے کا کوئی ایک بھی ہسپتال نہیں جہاں صدر،وزیر ِ اعظم یا وزیر ِ اعلیٰ علاج کرواسکے۔سرکاری طور پر پاکستان بھر میں کینسرکا کوئی ہسپتال بھی نہیں شہروں میں سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈپر کئی کئی مریض لٹاکرعلاج کیا جا رہا ہے۔
Nawaz Sharif
تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابرہیں اور جو موجود ہیں ان کی حالت سب پر آشکارہے شہروں سے دور سرکاری تعلیمی اداروں،ہسپتالوں اور محکموں کی کارکردگی جیسی ہے یہ سوچنا کڑھنے کے مترادف ہے اور ہمارے حکمران ہیں کہ عوام کی بہتری کے لئے کچھ سوچتے ہی نہیں ہر وقت گا ، گے، گی ۔۔کی تکرار سن کر لوگوں کے کان پک گئے بیشترکی حالت غیر ہے۔
اپنی انا کی جنگ میں عوام کا سوا ستیا ناس کرنا کہاںکا انصاف ہے؟ ایک بات سمجھ میں کبھی نہیں آئی جب بھی حکمرانوںکے گرد کھیرا تنگ ہونے لگتاہے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے اور ایک دوسرے کو بھاٹی چوک میںگھسیٹنے کے دعوے دار شیروشکرہوجاتے ہیں۔۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے حکمران اپنی عزت پر دولت کو ترجیح دے رہے ہیں حالانکہ انسان کے پاس ایک ہی قیمتی چیز ہوتی ہے جسے عزت کہا جاتاہے ورنہ مثل مشہورہے پیسہ تو طوائفوںکے پاس بھی بہت ہوتاہے ۔۔۔ دنیا کی سب سے بے ناقابل ِ اعتبار چیز دولت ہے آپ کبھی مشاہدہ یا تجربہ کرکے دیکھ لیں کسی کرنسی نوٹ پر اپنا نام لکھ کر سودا خرید لیں پوری زندگی وہ کرنسی نوٹ کبھی لوٹ کر آپ کے پاس دوبارہ نہیں آئے گا آزمائش شرط ہے۔ اتنی ناپائیدار چیزسے عزت پر ترجیح دینا کیسا لگتا ہے۔
حکمرانوں نے اپنے لئے تو دولت کے پہاڑ جمع کرلئے ہیں عوام کے حالات پہلے سے بھی بدترہوگئے ہیں یادکریںہمارے پیارے خادم ِ اعلیٰ نے تازہ ترین ایک بیان میں ارشادفرمایاہے میٹرو ٹرین منصوبے کی تکمیل کے لئے میں پہاڑ سے ٹکرا جائوں گا اشرافیہ مہنگی گاڑیوںمیں سفرکرتی ہے غریب عوام کا بھی حق ہے کہ وہ میٹرو ٹرین جیسی سستی اور شاندار سواری پرسفر کریں یقینا یہ عزم ِ صمیم خادم ِ اعلیٰ کے جذبات کی عکاسی کرتاہے ان کے اس جذبے کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
حالانکہ تھانہ کلچر بھی وہی ہے عام آدمی کی اسی طرح تذلیل، عدالتوں میں غریبوں کی وہی خجل خرابی،سرکاری دفتروںمیں لوگوںسے بدسلوکی معمول کی بات ہے جب کچھ بھی نہیں بدلا توپھر دعوے کیسے؟ پہاڑسے ٹکرا جانا کیسا؟ کیا میٹرو اورنج لائن ٹرین حل المشکلات کا تعویزہے جیسے یہ منصوبہ تکمیل ہوا عوام کے مسائل چٹکی بجاتے حل ہوجائیں گے؟ جس نے باٹاپور جاناہو یا ٹھوکرنیاز بیگ سے آگے سفر کرناہو اسے کون سی میٹرو ٹرین ملے گی۔ کبھی سوچا آپ نے ایک چھوٹے سے روٹ پر میٹرو ٹرین چلانے سے عوام کو سفری سہولتیں کما حقہ میسر آ جائیں گی ؟ ۔۔کیوں جناب مذاق کرتے ہیں اس سے تو بہتر تھا لاہورکی مختلف سڑکوں پر”ٹرام” چلا دی جاتی خرچہ بھی کم ہوتا اور عوام کو بہتر سفری سہولیات میسر آ جاتیں۔
Shahbaz Sharif
جناب دعوے نہ کیجئے عملی انداز میں کچھ کرکے دکھائیں تب بات بنے گی آپ برسوں سے پنجاب کے حکمران ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کروڑوںعوام پر حاکم مقررکیاہے کوئی ایسا محکمہ ۔۔۔کوئی ایک ادارہ ایسا بتا دیں جس کی کوئی کل سیدھی یا جس کا قبلہ سیدھا ہو یا کم ازکم آپ فخر سے اس کے بارے میں بتا سکیں لگتاہے سب کے سب لاعلاج ہیں ان ہڈحرام ،نکھٹو اور حرام خوروںکا اپریشن تو کیجئے ۔۔ جناب کسی روز تنہائی میں ذرا غورکریں ہسپتالوں سے لے کر تعلیمی اداروں،پولیس ،پٹواری کس کس کا نام لیں آپ کس کس کا دفاع کریں گے سب اداروں، تمام محکموںکا باوا آدم نرالاہے سب میں کرپشن سرایت کرگئی ہے۔
گلی کوچوں سے لے کر سڑکوں تک جس کی بات کریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ہر محلے میں کٹرابل رہے ہیں گندگی کے ڈھیر،ٹوٹی سڑکیں مسائل میں اضافہ کا موجب بنی ہوئی ہیں جناب ِ عالیٰ بلدیاتی انتخابات کروائے تھے تو ان کو اختیارات بھی دے دیئے جاتے تو کتنا اچھاہوتا عام آدمی کے مسائل حل ہو تے تو وہ آپ کو ووٹ کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی دیتا۔
چپڑاسی سے افسر تک بھرتی کا اختیار حکمرانوں کے پاس ہے آپ نے تو میٹرو اورنج لائن ٹرین کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھ لیاہے یہ طرز ِ عمل کوئی اچھی بات نہیں اے کاش خادم ِ اعلیٰ عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے پہاڑ سے ٹکرا جاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ عوام مسائل در مسائل کا شکار ہیں سرکاری دفتروں میں کوئی عوام کی نہیں سنتا ہر طرف عجب افراتفری مچی ہوئی ہے ان کا قبلہ درست کرنا بھی آپ پرفرض ہے فقط میٹرو لائن اورنج ٹرین ترقی کا معیار نہیں ترقی ہر شعبہ میں بپا کرناآپ کی ترجیح ہونی چاہیے خادم ِ اعلی عوام کو تھانہ کلچرسے ہی نجات دلا دیں تو ہمیں یقین ہے یقینایہی امرآپ کی بخشش کیلئے کافی ہوتا۔