اسلام آباد (جیوڈیسک) ہندوں کے خلاف تضحیک آمیز بیان دینے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور صوبہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے استعفی لے لیا گیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے ان کا استعفی منظور کر لیا ہے۔
دارالحکومت لاہور میں گردش کرنے والی افواہوں کے مطابق ممبر صوبائی اسمبلی صمصام بخاری کو چوہان کی جگہ پنجاب کا نیا وزیر اطلاعات بنایا جا رہا ہے جو امکانا بدھ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا سکتے ہیں۔ ایسی افواہوں کی البتہ سرکاری ذرائع سے تصدیق فی الحال نہیں ہو سکی ہے۔
وزیر اعلی پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کی طرف سے منگل کی شام جاری کیے جانے والے ایک ویڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ فیاض الحسن چوہان کا ہندو مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں دیا گیا بیان حکومت کی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس بیان کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ بیان سے مکمل طور پر لا تعلقی اختیار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس بیان پر پنجاب کے وزیر اعلی بہت رنجیدہ ہیں اور انہیں دلی طور پر دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل کے مطابق وزیر اعلی بزدار نے منگل کے روز فیاض الحسن چوہان سے ملاقات کر کے انہیں اپنی ناخوشی سے آگاہ کیا تھا۔ اس کے بعد چوہان نے استعفی دیا، جسے وزیر اعلی پنجاب نے منظور کر لیا۔
وزیر اعلی پنجاب کے ترجمان کے مطابق پنجاب حکومت اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور ان کو پہنچنے والے صدمے پر ان سے معذرت خواہ ہے۔ قبل ازیں فیاض الحسن چوہان نے بھی اپنے ایک وضاحتی بیان میں ہندو برادری سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان کی ہندو کمیونٹی کو مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کا ہدف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، بھارتی میڈیا اور افواج تھے۔
فیاض الحسن چوہان بعد ازاں اپنے استعفے کی منظوری کے بعد الحمرا میں سرکاری اہلکاروں سے الوداعی ملاقاتیں کر کے واپس راوالپنڈی روانہ ہو گئے۔ چوہان راولپنڈی سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہ اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے کئی مرتبہ تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں شمولیت سے پہلے وہ جماعت اسلامی کا حصہ تھے اور اپنی تعلیم کے دور میں وہ اسلامی جمیعت طلبہ سے بھی منسلک رہے۔
پاکستان میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے پنجاب یونیورسٹی کے استاد اور ممتاز محقق اشوک کمار کھتری نے کہا کہ صوبائی حکومت کا اقلیتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا یہ قدم قابل تحسین ہے۔ ان کے بقول اس سے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو ایک اچھا پیغام پہنچا۔
اسی دوران پاکستان میں سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی فیاض چوہان سے استعفی لیے جانے کو درست فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی پر بڑھتے ہوئے دبا کے پیش نظر یہ فیصلہ ناگزیر ہو گیا تھا۔ اشوک کمار کا کہنا ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں رہنے والے ہندو اس لیے بھارت نہیں گئے تھے کیونکہ وہ اس مٹی سے پیار کرتے تھے۔ کمار کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے اقلیتی افراد پاکستان کی حفاظت کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس آف پاکستان بھگوان داس کی خدمات ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح اور بھی لوگ ہیں۔ کمار کے مطابق شاید اسی لیے قائد اعظم نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے بات کی تھی۔ کمار نے مزید کہا، پاکستانی پرچم میں سفید رنگ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کی اس پرچم کو سر بلند کرنے کی زیادہ ذمہ داری اقلیتوں کی ہے اور اس لیے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تضحیک آمیزی کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔