ریاستیں جڑنے کے لئے نہیں ٹوٹا کرتیں

Jammu and Kashmir

Jammu and Kashmir

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
کشمیری اقوام عالم میں اور فلسطینی دو ایسی بدقسمت قومیں ہیں جنہیں پون صدی سے اپنی ہی سر زمین پر مقید و یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ مستقبل قریب میں بھی ان دونوں مظلوم اقوام کا آزاد ہونا بعید از قیاس نظر آرہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اہل یورپ نے مغضوب و سازشی قوم یہود کو اپنے ہاں سے نکال کر اہل عرب پر مسلط کر دیا ۔ پھر اس بخت قوم نے اہل فلسطین ہی نہیں سارے عرب کو اپنے مربی و سرپرست امریکہ اور برطانیہ کی آشیرباد سے عرب و افریقہ کو بھی آگ کی بھٹی میں جھونک کر رکھ ددیا۔ اور وہ دونوں عربوں کے ہاں لگی اس آگ کو باہر سے تماش بین بن کر سینک رہے ہیں۔ عجب تو یہ ہوا گزشتہ صدی یاسر عربات جیسے ناہنجار فلسطینیوں کے مربی و رہنما رہبر بن کر دشمنوں کے ہاتھوں کھیلتے رہے ۔ بظاہر عرب قوم کے ہیرو اور نیلسن منڈیلہ بنے رہے ۔ ڈالروں کی ریل پیل میں آخر کار انجام کو پہنچے مگر اپنے مقبوضہ وطن اور قوم کو رتی بھر فائدہ نہ پہنچا سکے اور رقیب روسیاء مضبوط سے مضبوط تر بن کر صرف فلسطین ہی نہیں سارے عرب بلکہ مدینہ المنورہ کی پاک سر زمین پر بھی اپنی ناپاک نظریں لگائے بیٹھا ہے۔

جبکہ موجودہ فلسطینی صدر عباس بھی شکوے شکائیت پر ہی اکتفا کئے بیٹھا ہے۔ ایسی حالت میں روز مرہ فلسطینی سوائے اپنی جانیں دینے کے کچھ نہیں کر سکتے اور نہ ہی آزادی ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہاں البتہ کوئی معجزہ رونما ہو جائے۔ امریکی صدر اور برطانو ی وزیر اعظم مسلمان ہو جائیں۔ اسرائیل اپنے ہی بنائے جوہری ہتھیاروں کے حادثوں کی نظر ہو کر تباہ اور برباد ہو جائیں۔ یہودی اللہ کے غضب کا نشانہ بن جائیں۔ تب ورنہ کوئی قیامت صغریٰ ہی اس کا فیصلہ کر سکے گی۔ جس کے لئے اہل عرب کا بھی مرنا اور جی کر اٹھنا لازما ٹھہرے گا۔ اور صبر آزما انتظار بھی قارئین تقریبا یہی صورت احوال اہل کشمیر والوں کو بھی پیش آتی رہیں ۔ اور مستقبل میں بھی کوئی اچھے آثار نظر نہیں آتے پون صدی قبل مہاراجہ کے ظلم و ستم نے بکری گائے بھینس اور چولھا ٹیکس نے اپنی ہی ملکیتی زمینوں پر ٹیکس اور آواز اونچی کرنے کے جرم میں زندہ کھالیں کھینچنے جیسے ظلم نے اس طرف کے کشمیریوں نے جن کی اکثریت انگریز کی ریٹائر فوج پر مشتمل تھیں انہوں نے متحد و منظم ہو کر لاٹھی کھلاڑی ٹوپی داربندوقوں کو ہتھیار بنا کر مہاراجہ کی ظالم فوج کو پیچھے دھکیلتے دھکیلتے سری نگر جا پہنچایا ۔ انکی مدد کو ہمارے محسن قبائلی مجاہدین بھی شانہ بشانہ رہے۔ مگر بدقسمتی سے اس وقت کے سازشی عناصر نے یہ فیصلہ کن جنگ بند کر وا دی عجیب اتفاق یا قصداً اس پار کے کشمیریوں نہ جموں لداخ اور نہ ہی وادی کے کشمیریوں نے اس تحریک اور جہاد میں حصہ لیا نہ ہی ہمارے مجاہدین کا ساتھ دیا۔

آج کی موجودہ انکی جدوجہد کا اگر دسواں حصہ بھی وہ اسوقت جاری رکھتے تو اس وقت کی ایک لاکھ انڈین فوج کو ناکوں چنے چباتے اور جموں لداخ نہ سہی کم از کم وادی کی آزادی ہمارا مقدر ہوتی مگر ہم نے وہ آزادی کا سنہری موقع گنوا کر رکھ دیا۔ پھر بدقسمتی سے اگر اس وقت ہمارے تینوں بڑے سردار محمد ابراہیم خان ، چوہدری غلام عباس اور شیخ عبداللہ آپس میں مل بیٹھ کر کوئی حکمت عملی اختیار کرتے ڈٹ جاتے تب بھی کشمیر کی آزادی ہمارا مقدر ہوتی مگر افسوس تینوں کی پروازیں الگ الگ شاہین کی پرواز اور کرگس کی پرواز اور کی مثل انہوں نے سیاسی حکمت عملی کو پس پشت ڈال کر کشمیریوں کو مزید قفس میں صیاد کے سپرد کر دیا چھوڑ دیا اس طرف اگر سردار ابراہیم خان پاپولر تھے تو اس طرف شیخ عبداللہ بھی شیر کشمیر تھے۔ جن کے محبت میں لاکھوں کشمیری تھے۔ 1964میں جب وہ اسلام آباد آئے تو یہاں کے ہر خاص و عام نے انکو سر آنکھوں پر بیٹھایا۔اگر چند دن یہاں وہ مزید رہ جاتے تو پاکستانی کشمیری لیڈران شائد کشمیر کے حل تک پہنچ جاتے مگر جواہر لال نہرو کی اچانک موت پر واپس انکو بلالیا گیا۔ پھر اس طرح یہ تیسرا موقع بھی کشمیریوں کی آزادی کو کھو دیا۔ شیخ عبداللہ مکمل ہندوستان کی گود میں جا بیٹھے وہ شیر کشمیر سے شیر ہندوستان بن کر محبوب کشمیری رہنما سے مغضوب رہنما بن گئے۔ انکی وفات پر انکی قبر پر پہرہ لگا دیا گیا۔ جو آج بھی جوں کا توں ہے۔

قارئین پانچواں موقع پینسٹھ کی جنگ تھی ہم نے ہماری فوجوں نے مقامی مجاہدین کی معاونت سے کشمیر کے چند اہم علاقے قبضے میں لے لئے تھے۔ مگر پاکستان کے چند علاقے کھو بھی دیئے جو کہ تاشقند معاہدے میں ادلے بدلے میں واپس کر دیئے گئے تمام جنگ لا حاصل رہی ۔ مگر اس جنگ نے اس پار کشمیریوں کی آنکھیں کھول دیں 1987میں انہوں نے بھر پور انداز سے تحریک انتفاضہ شروع کر دی مگر تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہندوستان نے آٹھ لاکھ فوج داخل کر دی گھر گھر کشمیر ی جوانوں کے لاشے گرنے لگے چھوٹے بڑے بوڑھے عورتیں دو لاکھ کشمیری قربان ہو گئے۔ مگر اب تک تحریک لا حاصل رہی ۔ ہمارے ہی نا عاقبت کہ اندیش حکمرانوں نے سرحدوں پر کنکریٹ اور جالے دار دیواریں کھڑی کر ا دیں ہر قسم کی مالی جہادی امداد بند کر ادی اب کشمیر کی آزادی دلی دوراست لگ رہی ہے۔ دونوں اطراف ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔ صرف وادی کشمیر کی آزادی کی قیمت پر ڈیڑھ ارب انسانوں کی جانیں لینے دینے پر کون راضی ہو گا۔ بین الاقوامی برادری تو کیا مسلم امہ بھی ہمارا ساتھ دینے پر راضی نہیں ہم ہیں کہ جاگتے میں سارے کشمیر کی آزادی کا خواب صدیوں پرانے کشمیر کو اگھٹا کرنے کا خواب سہانا ویکھ رہے۔ ہماری ریاست کشمیر کی آزادی اورشناخت برقرار رکھنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

کون ہمیں سمجھائے کہ ریاستیں واپس جڑنے کے لئے نہیں ٹوٹا کرتیں۔ اسی لاکھ مربع میل سلطنت امویہ عباسیہ ٹوٹیں پھر نہ جڑیں۔ سارے برصغیر پر مشتمل ہندوستان متحدہ بنگال ٹوٹے پھر نہ جڑے۔ پاکستان دو لخت ہوا۔ پھر نہ جڑ سکا۔ عرب ٹوٹ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گئے۔ پھر کشمیر پون صدی قبل تین حصوں میں تقسیم ہوا اب پھر وہ کیسے کیونکر جڑ سکے گا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وادی والوں کا ایک حصہ ضرور بنے گا۔ بن کر رہے گا۔ انکی آزادی مقدر ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی کشمیر کے چار حصے بننے یہ ایک حقیقت ہے۔ آپ کس کس سے آزادی حاصل کریں گے۔ لڑیں گے چائنہ سے ہندوستان سے پاکستان سے کبھی بھی نہیں سارے فریق یہ حقیقت تسلیم کریں خداراہ کشمیری خون مزید نہ بہنے دیں کسی نتیجے پر پہنچیں جموں لداخ والے جائیں بھاڑ میں۔ پون صدی کی جدوجہد آزادی کی تحریکوں میں نہ پہلے انکا نہ ابھی کوئی پارٹی سیٹ نہیں حصہ نہیں۔ رہا میں خون وادی والوں کا بہہ رہا ہے انہیں ان کا حق دیں۔ میز پر آئیں۔ کچھ لو کچھ دو پر اس قدیم قضیے کا حل نکالیں۔ ورنہ کشمیری مرتے رہیں گے ساری ریاست کی آزادی اور بحالی ہاں کوئی معجزہ ہی رونما ہو تو ہاں اگر ہندوستان ٹوٹ کر بکھر جائے خالصتا بن جائے نا گا لینڈ منیرو لینڈ اور وہاں دوسری آزادی کی طلبگار ریاستیں آزاد ہو جائیں یا قیامت صغری یا پھر اللہ نہ کرے دونوں تینوں جوہری ریاستیں آپس مین ٹکرا جائیں نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اللہ اللہ خیرصلہ کشمیر اٹوٹ انگ ہو گیا یا کشمیر بنے گا پاکستان یا پھر کشمیر کشمیریوں کا ہو گا۔ فیصلہ آپ سب کے ہاتھ میں ہے۔ جلدی کریں کسی نتیجے پر پہنچیں ورنہ کسی قیامت کا انتظار ۔ الملک لاللہ الحکم لاللہ۔

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان
hajizahid.palandri@gmail.com