تحریر : میاں وقاص ظہیر نارو کے مشہور سنگ تراش اوسلو کی اکیڈمی نے حالیہ دنوں میں ایک ”ٹری ٹران “ کے نام سے مجسمہ بنایا ہے جس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بالکل پوری دنیا جہاں جہاں بھی اس” ٹری ٹران“ کی تصاویر پہنچی ہیں سب کو حیران کر دیا ، یہ مجسمہ اس وقت ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے میوزیم میں پڑا ہے ، مجسمہ ایک خوبرو نوجوان سوٹڈ بوٹڈ آدمی کا ہے جو اوندھے منہ زمین پرساکن پڑا ہے جسے ایک پرندہ اپنے پاﺅں کی مدد سے اٹھا نے کی کوشش کر رہا ہے ، لیکن اس میں اٹھنے کی سکت نہیں ،میرے سامنے بھی جب اس مجسمے کی تصویر آئی تو پہلے میں بھی اسے غور سے دیکھتا رہا اور اس میں پنہاں سنگ تراش کے پیغام کو تلاش کرنے کی کوشش کررہاتھا کہ دوسری جانب قصور کی زنیب کی تصویر پر نظر پڑ گئی جس نے سنگ تراش کے اس پیغام کو سمجھنے میں آسانی پیدا کر دی۔
مجسمہ ساز کہنا چاہتا تھا کہ جلد یا بدیر ہر ایک کو یہ دنیا چھوڑ کر جاناہے ، جس کے انجام سے کوئی بھی واقف نہیں کہ اسے کہاں کس حال میں یہ دنیا چھوڑنی پڑی، کیا جس نفس کیلئے آپ دنیا میں سب سے نمایاں نظر آنا چاہتے ہیں وہ موت کے بعد آپ کا ساتھ دے گا ، جن خواہشات کے پیچھے زندگی بھر بھاگتے رہتے ہیں وہ آپ کو بچا سکیں گی ، جس بیوی، اولاد کیلئے آپ حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر پیسہ کماتے ہیں وہ آپ کے جسم میں روح نکلنے کے بعد معاون ثابت ہوگا ، کیا آپ جس خوبرو جسم اور جوانی کے نشہ میں گم ہوکر ظلم کی تمام حدیں پار کرجاتے ہیںاور یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ کمزور خاکی بدن موت سے مقابلہ کرلے گا۔جس کا جواب تو ناممکن کے دو الفاظ میں چھپا ہے۔
فقیر! نے اس مجسمے کی تصاویر کو قصور کی معصوم کلی زینب کی تصویر کے ساتھ رکھا تو اس نے میرے پیچھے بیان کئے جانے والے تمام نظریات کورد کردیا اور ایک نئی کہانی بیان کی ہے، جس کے مطابق وہ ”ٹری ٹران“ مجسمہ ہمارے مردہ سسٹم کا ہے جس میں سیاستدان ہوں یا پولیس یا ملکی اورضلعی تمام ادارے جو دیکھنے کو تو بڑے جاذب نظر ہیں ، لیکن حقیقت بالکل مختلف ہے، اس مجسمے کو اٹھنے والے پرندے کو فقیر زنیب کے روپ میں دیکھ رہاہے جومردہ سسٹم کو پاﺅں پر کھڑا کرنے کی کوشش کررہاہے کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ تو ملکی تاریخ کے سیاہ اوراق میں درج ہوچکا ، اب ہی اپنے مردہ سسٹم میں روح پھونک لو جو کسی بھی زینب ، لائبہ ،عائشہ ، کائنات ، آمنہ اور میرے جیسی لاکھوں کلیوں کو وقت سے پہلے ہی مرجھا نے نہ دے ، نہ ہی لوگوں کو انصاف کیلئے سڑکوں پر آنا پڑے، نہ کسی ایم این ایز، ایم پی ایز کے ڈیروں کو آگ لگے، شہر بند ہوں ،نہ ہی ہسپتال اور سرکاری املاک میں توڑ پھوڑ ہو۔ہماری پولیس اگر کام میرٹ پر کام کرتی ، یہاں کے پی ایس پی آفیسرزوزرا ، مشیروں کے تلوے چاٹنے اور بدلے میں پرکشش سیٹیں لینے کے لالچ سے مبرا ہوتے تو کیا مجال تھی ڈی پی او ذوالفقار علی کو یہ کہنے کی جس محافظ نے زینب کی کوڑے سے لاش ڈھونڈی ہے اسے 10ہزار انعام دیا جائے۔
فقیر !پہلے بھی لکھ چکا کہ ہمارے ملک کے تھانوں میں آج بھی ٹھیکیداری نظام رائج ہے ، سی سی پی او ، ڈی آئی جی ، آر پی اوز، ڈی پی اوز، ایس پیز کے دفاتر میں آج بھی لوگ انصاف کیلئے درخواستیں لئے خوار ہورہے ہیں ان کی درخواستوں پرکئی کئی چکر لگانے کے باوجودعمل درآمد نہیں ہوتا ،نہ ہی شرم آتی ان مردہ ضمیر تھانیداروں کو جو قتل کے مقدمات سمیت کسی بھی قانونی کارروائی کیلئے شہریوں سے رشوت کے پیسے وصول کرنے کو حق سمجھتے ہیں ، اللہ کی لعنت ایسے لوگوں پر جو زیادتی کے شکار خاندانوں کی مدد کرنے کی بجائے تھانوں میں مزید زیادتیاں کرتے ہیں ، جو افسردو چار ایپ بنانے اور ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کو پولیس سسٹم میں اصلاحات کا ڈھونڈا پیٹ رہے ہیں اور موت بھول گئے تو یاد رکھنا تمہار ا حال جو ہورہاہے اورمزید جو ہوگا وہ دنیا دیکھ رہی اور اسی طرح دیکھتی رہے گی۔