تحریر : افتخار چودھری پنڈی تحریک انصاف نے آج اپنے عہدے داران کے اعزاز میں جھیل کنارے ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا باعث تقریب راولپنڈی تنظیم کی اسلام آباد جلسے کے لئے بہترین کارکردگی پر دوستوں کے اعزاز میں روٹی ٹکڑ تھا۔سب لوگ تھے بڑی اچھی گپ شپ ہوئی۔وہیں ایک میز پر دو سابق اعلی افسران بھی تھے جن سے لوگ پوچھ رہے تھے یہ کیا ہوا؟کیسے ہوا؟اور ان کا جواب تھا چھوڑو بے کار کی باتیں۔
دوستو!بات ایسی بھی نہیں کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔پنجابی کی ایک مثال ہے نانی خصم کیتا مندا کیتا کر کے چھوڑیا ہور مندا کیتا۔تھوک کے چاٹنا کوئی مناسب لفظ نہ ہو گا لیکن اس سے کم پر گزارا بھی نہیں۔کس نے کہا تھا کہ آپ پنگا لیں۔کہتے ہیں ایک سردار صاحب اور طوطا دونوں فضا میں ایئر ہوسٹس کو تنگ کر رہے تھے عملے نے دونوں کو اٹھا کے پھینک دیا سردار چیخے طوطے نے جواب دیا اگر اڑ نہیں سکتے تھے تو پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی؟لگتا ہے پنگا ہی لیا گیا تھا جس کی سزا بھگتنی پڑی ہے۔میں جانتا ہوں کہ پاک فوج کو کسی اونچے دربار سے کہلوایا گیا تھا کہ پرانی تنخوا پر کام کرو۔ پاک فوج نے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ہندوستانی ٹٹوئوں کا بھرپور مقابلہ کیا تھا اور کراچی کے محاذ پر انہیں ناکوں چنے چبوائے۔ادھر وزیرستان میں پاکستان دشمنوں کی سرکوبی کی۔تحریک طالبان کے منہ زور لشکروں کو کان پکڑوائے سب کچھ کیا مگر اندر کی لڑائی میں اسے اس حکومت کے سامنے زانو ٹیکنے پڑے وہ حکومت جس نے اپنے بڑے زمینی خدا اور ان کے حواریوں کی جانب سے زور لگوا کر یہ کام کروایا۔فوج نے جو کچھ کیا یہ ایک بڑے لیکس سے کم نہیں ہے لگتا ہے ڈان لیکس اپنی موت مر گیا ہے جو لوگ اپنے کئے پر پچھتاوا کر رہے ہیں ان سے اب کیا امید کے وہ اس حکومت کی بھارت نواز پالیسیوں پر چپ رہیں گے۔یہ افغانستان کیا ہے انڈیا کی ایک چھائونی جو صرف کابل تک محدود ہے۔
اس نے پاکستان پر چڑھائی کر کے کیا پیغام دیا ہے اور ایران کس باغ کی مولی ہے جو پاکستان کو آنکھ دکھا رہا ہے۔ایسے میں فوج کو کمزور کرنا کس کے اشارے پر کیا جا رہا ہے؟ یہ بات سوچنے کی ہے۔کیا پاکستان کی فوج کو اس وقت کمزور کرنا کس کو مضبوط کرنا ہے۔سوچ لیا جائے۔پاک فوج کی عزت ناموس ہم سب کی ہے۔ہاں اگر یہ سچ مان لیا جائے کہ فوج کا بازو مروڑ کر ٹویٹ کو واپس کرنے پر مجبور کیا گیا ہے تو پھر سمجھ لیں کوئی بازو اکڑ بھی جاتے ہیں جو ملک کے لئے کسی صورت اچھا نہیں ہو گا۔
ادارے سارے ہی خاموش ہو کر ایک ہی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں اور وہو صف صاحبان اقتتدار کی ہے۔جے آئی ٹی کا کھلی عدالت میں کاروائی چلانے کا مطالبہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عدالتوں پر بھی اعتماد کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔جب پریشر ککر کے سارے سوراخ بند ہو جائیں تو یہ پھٹتا ہے ۔سوچ لیجئے پھٹنے کے نتیجے میں کیا کیا ہوتا ہے۔میاں صاحب سے بہتر کون جانتا ہے جو مکہ مکرمہ میں میرے سامنے کہتے رہے کہ میں نے جب قدم بڑھایا تو میرے پیچھے کوئی بھی نہ تھا۔قصر الضیافہ کی راہداری میں مجھے وہ الفاظ یاد ہیں میاں صاحب ان لوگوں نے آپ کے اقتتدار میں حرام کھایا یہ وہی حرام ہے جو انہیں مشرف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہا ہے۔
وقت یہ بھی نہیں رہے گا اور وہ بھی نہیں رہا ہم اس وقت بھی انہیں سمجھا رہے تھے اور ایک اور نشست کی بات بھی کر دوں جس میں انہیں سمجھایا تھا کہ ساری فوج کے ساتھ لڑائی نہیں لڑی جا سکتی صرف کرپٹ جرنیلوں کے خلاف لب کشائیکیا کیجئے۔اس بات کے گواہ موجود ہیں میں وقت آنے پر ان کا نام لے لوں گا۔ایک تو ایک ادارے کے سربراہ بنا دئے گئے ہیں۔دوسرے ایک صوبے کے اہم ذمہ دار جنہوں نے کہا تھا جی آج کے بعد ہماری پالیسی یہ ہو گی۔یہ جوکچھ ہوا غلط ہوا ادارے کی اس سے بڑی تضحیک کیا ہو گی جو سب کے دلوں میں ایک بارعب اور با وقار ہے اسے پریشان کیا گیا۔اس سے میاں صاحب آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔لوگ ایک بار پھر پچھلی جانب چلے جائیں گے اور آپ اکیلے۔اور ایسے میں پاکستان ایک بار پھر اندھیروں میں چلا جائے گا۔اس نانی کو بھی ہزار بار سوچنا ہو گا کہ میاں صاحب اکیلے نہیں ہیں بھارت ایران افغانستان اسرائیل امریکہ کہہ رہے ہیں قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔