سٹیک ہولڈر

Pakistan

Pakistan

”جس کی لاٹھی اس کی بھینس ”کا قدیمی مقولہ، اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود، کم ازکم پاکستان کی حدتوا پنی سابقہ حیثیت کھو چکا۔ اس کا”پاکستانی ورژن”عرصہ ہوا، تبدیلی کے آفاقی سلسلے کی نذر ہو چکا۔ ہمارے یہاں جس کی بھینس ہو لاٹھی بھی اسی کی ہوتی ہے اور پھر یہ ہوتا ہے کہ دونوں ”بحقِ سرکار” ضبط ہو جاتی ہے(یہاں سرکار سے مراد”پاک سرکار ” نہیں ہے)اور مالک بیچارہ ہاتھ ملتا اور اپنے نصیب کو کوستا رہ جاتا ہے۔میری نظر میں ایک اچھے انسان کی ایک تعریف یہ بھی ہے جو کسی اور کی چیزکو اپنی نہ سمجھے لیکن سوال یہ ہے کہ کیاوہ لوگ جن کے ہاتھ میں اختیار کی چھڑی ہے(خواہ یہ اختیار کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو) ، ایسا کر پاتے ہیں ؟کیا ان کے ہاتھ اور زبان سے انسان چھوڑیں ، مظلوم محفوظ ہیں ؟۔ ”آمنہ خود سوزی” کیس کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کریں ،دس میں دس کا یہی ایک جواب ہوگا” ہرگز نہیں ”۔صاحبانِ اختیار کیلئے ہمارے ہاں انگریزی کی ایک اصطلاح بکثرت استعمال ہوتی ہے، یعنی ”سٹیک ہولڈرز لیکن میری نظر میں اس اصطلاح کی حیثیت محض نظری ہے۔ کیونکہ عملی طور پر ہمارے یہاں دراصل stick holders کا راج ہے۔

علاقہ اپنا ہو اور اسے غیر کہا جائے ،بات کچھ پلے نہیں پڑتی۔۔۔ہمارے ملک میں ایک علاقہ غیر ایسا بھی ہے جو ہمارا ہو کے بھی غیر ہے۔میں” فاٹا” کی بات کر رہا ہوں نہ کراچی کی۔ میں راجن پور کا ذکرِ خیر بھی نہیں کرتا ۔میں تو مظفر گڑھ کا حوالہ دے رہا ہوںجو بدقسمتی سے میرا آبائی ضلع ہے ۔اپنے وسیب (بلکہ نشیب )کا ایک ایساخطہ جس میں ”شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں”۔یہ اور بات کہ اکثر و بیشتر یہ بکری کاآخری جام ہوتا ہے کہ اس کے بعد وہ فنا کا جام پی لیا کرتی ہے۔کہتے ہیں فاٹا کو علاقہ غیرہونے کی گارنٹی ہمارا آئین بھی فراہم کرتا ہے ۔یعنی وہاں کسی غیر یعنی پاک سرکار کی کوئی عمل داری نہیں ہو گی ۔یہ وہ غیور وآزاد لوگ ہیں جنہیں انگریز بھی کبھی زیر نہیں کر پائے۔یہ آزاد منش ،شاطر گورے کوبھی کسی خاطر میں لاتے تھے۔لیکن باخبر ذرائع کے مطابق ہمارا آئین جدید علاقہ غیر(مظفر گڑھ)کو کوئی ایسی گارنٹی فراہم نہیں کرتا کہ وہ کسی بھی طرح اسے غیر کہہ یا سمجھ سکیں(محولہ بالاراج کی توسیعی شکل ) اس علاقے کے ”غیور طبقات”نے یہ احتیاط البتہ ضرور کی ہے کہ اس کو علاقہ غیر بالکل بھی نہیں کہا صرف سمجھا ہے ۔جبھی تو یہاں ہر وہ کام پورے دھڑلے سے کیا ہے جس سے اس علاقے کی شہرت ملکوں ملکوں پھیل سکے۔

اس سلسلے میں پہلا بین الاقوامی قدم وہ مائی تھی جس کی وجہ سے یہ علاقہ لائم لائیٹ میں آیا۔”خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے ” کے مصداق اخبارا ت اس ایشو کو لے اڑے….. اتنا کہ ان کا اپنا قد بہت چھوٹا رہ گیااوروہ بے اختیار مائی (مختاراں مائی ) پر لگا اتنی بلند ہوئی کہ بین الاقومی شہرت کی حامل شخصیت بن گئی۔”این جی اوز ” کو اپنی نوکری پکی اور آئندہ کے لئے مراعات اکھٹی کرنے کا خوب خوب موقع ہاتھ آیاجو انہوں ظالموں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔جبھی و جھٹ سے ایک دیہاتی عورت عالمی سرخیوں کا موضوع بن گئی اوراسکی سٹوری ہاٹ کیک”کی طرح بکنے لگی۔اس طوفان میں حقائق کا کتنا قتل عام ہوا،اس کا کسی کو ہوش ہی کب تھا کہ سوچتا ۔بعد میں کچھ باتیں سامنے آئیں بھی تو اس وقت تک خاصی دیر ہوچکی تھی اور معاملہ ان لوگوں کی گرفت میں آ چکا تھا جن کے ہاتھ بہت لمبے ہیںاور طاقت ور بھی۔آگے کی کہانی بڑی روایتی سی ہے۔جی ہاں اتنا ہلے گلے کے بعد بھی روایتی۔

ان دو باتوں کو ٹالنا بالکل اس طرح ہے جیسے کسی ہونی کو ٹالنا۔ ایک تو یہ کہ ہمارا کوئی فنکار انڈیا جائے اور یہ بیان نہ کہ فن کسی سرحد کو مانتا ہے نہ اس کا محتاج ہے اور یہ کہ ہمارا کلچر ایک ہے سو ہم بھی ایک سے ہیںاور ایک بھی۔ اور دوسرا یہ کہ کوئی عالمی سرخیوں کا موضوع بنے اور اس ملک کو گالی نہ دے۔ہمارے ”آخری”آمر نے ہونی کو ٹالنے کی سعی کی تو اس عاجز کو بیرون ملک میں پریس کانفرنس کے دورا ن معذرت کے ساتھ ساتھ اپناحکم بھی واپس کرنا پڑااور ضبط شدہ پاسپورٹ بھی۔”ہاٹ کیک ”دنیا بھر سے شہرت اوردولت سمیٹنے کے بعدابھی تک اپنے علاقے میں موجود ہے ۔اڑتی اڑتی خبر آئی ہے اب وہ ہمیشہ کے لئے اڑ کر جانے کو پر تول رہی ہے۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس پر ظلم ہوا۔لیکن اس اعلی سطحی تحقیقات اور عدالتی کاروائی کو کس کنوئیں میں ڈالا جائے جس کے سامنے آنے کے بعد سے آج تک یہ رونا رویا جاتا ہے کہ اگر اس کو انصاف مل جاتا تو پھر کسی کو جرات نہ ہوتی کہ کسی مجبور پر ہاتھ بھی اٹھا تا۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے عدالتوں ، قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں اور حکومتوں کا جواز ہی کیا رہ جاتا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے پوری دنیا میں آئے روز ہماری تذلیل ہوتی رہتی ہے۔ جس ملک میں مختاراں مائی جیسے عالمی شہرت یافتہ کیس تک میں” انصاف کے تقاضے” پورے نہ ہو پائیں وہاں کسی اور کو انصاف ملنے کی امید ہو گی۔

Punjab

Punjab

آمنہ خودسوزی کیس ایک اور واقعہ ہے جس نے میرے ”علاقہ غیر” کو ایک بار پھر عالمی سرخیوں کا موضوع بنا ڈالا۔ہوس پرستوں نے تو جو ظلم کیا سو کیا ،دو ماہ سے زائد ایک ستم رسیدہ کو پل پل اذیت دے کر خود سوزی پر مجبور کر کے عدالت نے جہاں ” مرے پر سو درے ”مارے وہیں پولیس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ ”پولیس کا ہے فرض مرمت آپکی’ سوالات وہی ہیں جو خادم اعلیٰ نے ورثہ سے دل جوئی کرتے ہوئے مقامی انتظامیہ سے پوچھے ہیں ،اس فرق کے ساتھ کہ جو انہوں نے مقامی انتظامیہ سے پوچھے وہی میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے انہی سے پوچھتا ہوں کہ وہ خود کو پنجاب کی عوام کا خادم سمجھتے ہیں ۔ملک کے بڑے صوبے کے حکمران کی حیثیت سے انہیں وسیع اختیارات بھی حاصل ہیں ۔مرکز بھی روڑنے نہیں اٹکاتا کہ وہاں انکے بھائی براجمان ہیں ۔وزراء بھی اپنے گھرانے کے ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ ان کا گھرانہ سیاہ و سفید کا مالک ہیں، پھر بھی حالت یہ ہے کہ آنکھیں سفید ہوں تو ہوں اجالے آنے کی امید رخصت ہوچلی ہے۔روشنی کیا تب آئے گی جب آنکھیں اندھیرے اور اجالے کے درمیان امتیازکھو بیٹھیں گی ۔انہوں نے آمنہ کے سلسلہ میں اس گڈ گورنس کا حال بچشم ِ خودملاحظہ فرما لیا ۔بلا امتیاز انصاف کی فراہمی کی صورت یہ ہے کہ لوگ خودسوزیوں پر مجبور ہیں۔کیا اندھیر ہے کہ روشنی کے لئے مظلوموں کو اپنے خون سے چراغ جلانے پڑتے ہیں اور اندھیرا ہے کہ چاروں اور اپنے پر پھیلاتا اور غریبوں کی روحیں تک جلائے دیتا ہے ۔آپ ان سے پوچھتے میں حق بجانب ہیں کہ وہ کہاں ہیں تو یہ حق عوام کو بھی حاصل ہے کہ وہ پوچھ سکیں کہ آپ کہاں ہیں ؟کیا آپ کے چند لوگوں کو معطل کر دینے سے انصاف کی راہ ہموار ہو پائے گی ۔نتیجہ ماضی سے کچھ مختلف برآمد ہوگا یا بے ڈھنگی چال بدستور برقرار رہے گی ۔یہ سوال ہیں قوم جس کا جواب چاہتی ہے۔

جدید علاقہ غیر کے دو کردار وں مختاراں مائی اور دستی قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں کون سی خدمت سرانجام دی ہے کہ انہیں اس علاقے کا حقیقی نمائندہ قرار دیا جا سکے۔کیا ان میں اور باقی ”سٹک ہولڈرز” میں سوائے ناموں کے کوئی اور فرق باقی بچا ہے ۔ہمارا المیہ ”بابا صاحبا ”کی اس فرمان سے کہیں بڑھ کر پاکستان کو پڑھے لکھوں نے لوٹا ہے۔ہمیں دراصل ”عباسی سیاست دانوں ”نے لوٹا ہے جنہوں نے اموی سیاست دانوںکے خلاف علم ِ جہاد بلند کیا اور جب اقتدار ہاتھ میں آیا تو ان سے بڑھ کو ظلم کے پہاڑ توڑے۔مڈل کلاس قیادت نے کراچی کے ساتھ جو سلوک کیا وہ آپ سب کے سامنے بھی ہے اور میری اس بات کا واضح ثبوت بھی۔

ہاں قارئین یہاں مسئلہ اسٹیک ہولڈڑز نہیں سٹک ہولڈرز ہیں ۔جو اپنی لاٹھی سے جسے چاہتے ہیں جدھر چاہتے ہیں ہانکتے ہیں ۔ہم بہت بات کرتے اور سنتے ہیں قانون کی کہ احتساب کا ڈنڈا جب تک نہیں چلے گاانصاف نہیں ملے گا امن قائم نہیں ہو گا۔ہم نے غور ہی کب کیا ہے کہ قانون و احتساب کے ہاتھ میں سرے سے ڈنڈا ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو مظلوم کے سر پر برسنے کے لئے۔یہ نو گو ایریاز ،یہ علاقہ غیر کیا یہ ظاہر نہیں کرتے کہ ہمارا ملک اب ” نومینز لینڈ” ہے ۔یہ ان سٹک ہولڈر کی نگری ہے جو
ہمارے درمیان ہیں ،ہمارے اپنے ہیں پھر بھی غیر ہیں جبھی تو انکے مفتوحہ علاقے ” علاقہ غیر ” کہلاتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب ”وارث ”کمزور ہوجائیں یا انہیں ان کا حق نہ ملے تو تخت پر ”غیر” قابض ہو جایا کرتے ہیں۔

کوئی وارث ضرور ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتے

Safder Hydri

Safder Hydri

تحریر: صفدر علی حیدری
([email protected])