کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ ہفتے میں اسٹاک مارکیٹ 42 ہزار پوائنٹس کی سطح پر پہنچنے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کیس کے فیصلے کے بعد 40 ہزار پوائنٹس کی سطح پر آ گئی۔
اگرچہ بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 9.8 کے پرائس ٹو ارننگز ( P/E ) تناسب پر ٹریڈنگ کررہا تھا جو پاکستانی اسٹاک مارکیٹ کے لحاظ سے اب بھی معقول ہے۔اسٹاک مارکیٹ صرف ایک واقعے کی وجہ سے اس قدر اتارچڑھاؤ کا شکار کیوں ہوجاتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں ’’ طیران پذیر‘‘ کی اصطلاح پر غور کرنا ہوگا۔
طیران پذیری دراصل مارکیٹ کی گردش کی پیمائش ہے اور کے ایس ای 100 انڈیکس کا بنگلادیش اور ویت نام کے اسٹاک ایکسچینج سے موازنہ کیا جائے تو پھر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستانی مارکیٹ خطے میں سب سے زیادہ اتارچڑھاؤ کی حامل مارکیٹوں میں شامل ہوتی ہے۔ لکوڈیٹی اور ٹریڈڈ والیوم اسٹاک مارکیٹ میں زندگی دوڑانے کے لیے خون کی حیثیت رکھتے ہیں۔
غیرملکی اور ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کے لیے کوئی بھی اسٹاک مارکیٹ جو روزمرہ کیکم از کم لکوڈیٹی کی طلب پوری نہ کرسکتی ہو، ایک موت کے شکنجے کے مترادف ہے جس سے وہ دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی انتطامیہ نے مایوسی کا شکار ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کے لیے سرکٹ بریکر مکینزم کی حد ±7.5 فیصد تک بتدریج بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم یہ قدم صرف علامات کو مینیج کرنے میں معاون ہوگا، اس سے وجوہ کا سدباب نہیں ہوگا ۔
اے کے ڈی ٹریڈ آن لائن کے سربراہ حارث اسلم نئی متعارف کردہ کے وائی سی اور بایومیٹرک شرائط کے حامی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان شرائط کا نفاذ مرحلہ وار اور مناسب آگاہی کے ساتھ اور انھیں سادہ بناکر کیا جائے۔ دیگر دو مسائل سرمایہ لگانے والی کمپنیوں کی محدود تعداد اور موجودہ لسٹڈ کمپنیوں میں سرمایہ لگانے کے لیے فری فلوٹ کی کمی ہے۔ ریگولیٹرز اور پالیسی سازوں کو نان کمپلائنٹ لسٹڈ کمپنیوں کو سزا دینے کے لیے گاجر اور چھڑی کی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔