تحریر : ایم ایم علی سردیوں کی ایک یخ بستہ رات میں دہلیز فکر پہ بیٹھا کب سے سوچ رہاہوں کہ انسان کا وجود احساس سے عبارت ہے۔احساس ہی رشتوں کا حسن اور انسانیت کی معراج ہے اور اگر یہی احساس بے حسی میں ڈھل کر قوموں کا مزاج بن جاے تو قوموں میں انقلاب نہیں آیا کرتے بلکہ عذاب اترا کرتے ہیں ،انفرادی فا ئدے کو اجتماعی مفاد پر تر جیح دی جانے لگے تو اقوام ترقی پزیر نہیں زوال پذیر ہوجایا کرتی ہیں ۔ میرے شہر کے با سیوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ کانٹوں سے اس قدر مانوس ہیں کہ راہوں میں پھول بکھیرنے کی روایت ہی بھول گئے یا پھر شاید ان کے اندر سے احساس خوشبو ہی مٹ گیا ہے اور وہ گل و خار میں امتیاز کرنے سے قاصر ہیں ،مجھے کہنے دیجیے کہ لغت انسانیت میں اسی کیفیت کو موت کہتے ہیں،مٹی کے پتلوں میں روح انسانیت زندہ ہو تو احساس کا درجہ عبادت سے بھی معتبر ٹھہرتا ہے۔
احساس بھی ایک یکتا نعمت خداوندی ہے آنکھوں میں خوف خدا اور ندامت کے آنسو نمکین اور خوشی کے آنسو میٹھے ہو تے ہیں فطرت کا یہ فرق اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کسی کیلئے رنجیدہ ہو جانا خوف خدا سے کانپ کر آنکھیں بھیگ جانا یہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کی بارگا ہ میں بہت مقبول ہے اور یہ وہ عمل ہے جو دوسروں کی مدد کرنے انسانیت کا احترام کرنے کی طرف راغب کرتا ہے ،معاشرے کی فضاء کو خوشگوار بنانے پیار اور محبت کو پروان چڑھانے اور معاشرے کی قدروں میں بے مثال اضافہ کرنے کیلئے آنے والی نسلوں کے دلوں میں خوف خدا اور احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک دفعہ حضرت معروف کرخی جو نفلی روزہ سے تھے ، اپنے پیروکاروں کے ہمراہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک مفلوک الحال شخص کو دیکھا جو اپنے نا تواں کندھوںپر مشک اٹھاے پانی فروخت کر رہا تھا جب وہ شخص اس ولی اللہ کے قریب سے گزرا نظریں چار ہو یں تو اللہ کے اس برگزیدہ بندے نے ا س کہارکی سوالیہ نظروں کو بھانپتے ہوئے پانی پینے کا ارادہ ظاہرکیا اور پانی پی کر چند سکے اس کہار کے حوالے کر کے آگے بڑھے تو ایک پیروکار نے سوال کیا کہ حضرت آپ تو روزہ سے تھے آپ نے روزہ توڑ دیا تو اس احساس سے لبریز اللہ کے بندے نے جواب دیا کہ ادھر انسان ٹوٹ رھا تھا اور یہ کیسے ممکن ہے کہ میں روزہ بچانے کیلئے انسان کو ٹوٹنے دیتا اسی طرح اللہ کے ایک نیک بندے کی بازار میں دکان تھی ،بازار میں آگ لگ گئی آپکو خبر ہوئی دوڑے چلے آئے بازار کی تمام دکانیں جل گئی سوائے ان کی دکان کے اپنی دکان محفوظ رہنے پر فوراً زبان سے یہ الفاظ اد ا ہوئے کہ شکر ہے میری دکان محفوظ رہی ،گھر واپس لو ٹے تو خیال آیا کہ میں دوسروں کی دکانیں جلنے پر رنجیدہ ہونے کی بجاے اپنی دکان کے محفوظ رہنے پر اظہار مسرت کر رہا ہوں۔
ALLAH
احساس کے جاگنے کی دیر تھی کہ اس ایک لمحہ خود غرضی کیلئے مہنیوں بارگاہ خداوندی میں آنسو بہا بہا کر معافی کے طلبگار رہے۔ مگر میرے دیس میں بسنے والوں نے جہاں اور بہت سی اقدار کو خیر باد کہہ دیا وہیںدولت احساس سے محرومی بھی ان کا وصف ٹھہری اور اب یہ عالم ہے کہ زندگی کے روزو شب ، بازار میں سے گزرتے ہوے ہم با رہا کسی ضعیف و لاغر کو اپنے ناتواں کندھوں پر بوری کا بوجھ اٹھائے دیکھتے ہیں تو ہمارئے ضمیر معاشرے کی غیر منصفانہ تقسیم پر بو جھل نہیں ہوتے ۔کسی معصوم بچے کے ننھے ننھے ہاتھ جن میں کتابیں ہونی چاہیں کپڑا لیئے گاڑی کے شیشے تو چمکا رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے آہینہ دل پہ پڑی گرد کو صاف نہیں کر پاتے۔ منتظر انصاف کتنی ہی آہیں اور سسکیاں ہما ری سماعتوں سے ٹکراتی رہتی ہیں اور ہم مفادات کے بہرے پن میں انہیںسن نہیں پاتے۔ کتنے ہی سائل اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں اور ہم ائر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ان کی عزت نفس مجروح ہونے کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
امیر شہر ہیں کہ ہوس کی کانوں میں دولت کے انبار لگائے جارہے ہیں اور غریب شہر ہیں کہ ایک وقت کے کھانے سے بھی محروم ٹھہرے۔ ہادی برحق نے تو کہا تھا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے لیکن یہاں تو کتنی ہی مائیں اپنے لخت جگر،کتنی ہی بہنیں اپنے جوان بھائی اور کتنی ہی بیویاں اپنے سر کے تاج کھو بیٹھیں لیکن نہ تو پیشانی انسانیت پر قطرہ انفعال ابھرے اور نہ ہی خون کا سراغ ملا ،کہ تمام شہر پہنے ہوئے ہے دستانے۔
روزو شب کے میلے میںیہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا رہتا ہے لیکن ہم پر بے حسی اس قدر غالب ہے کہ یہ سب معاشرتی برا ئیاں کنکریوں کی صورت بحر احساس میں گرتی رہتی ہیںمگر حیرت ہے کہ احساس کے ان ساقط پانیوں میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوتا اب کہ شائد اس سکوت کے خاتمے کے لئے کوئی پتھر پھینکنے کی ضرورت ہے۔سردیوں کی اس یخ بستہ رات میں دہلیز فکر پہ بیٹھا کب سے سوچ رہاہوں کہ یہ پتھر کون پھینکے گا ؟ احساس کے ان ساکت پانیوں میں یہ پتھر کون پھینکے گا