تحریر : شاہ فیصل نعیم “تم بڑی باتیں کرتے ہو، یہ غلط ہو رہا ہے،وہ غلط کر رہا ہے۔۔۔نہیں اب مجھے بتائوکل جو پشاور میں ہواوہ سب تمہیں نظر نہیں آتا؟ یا تم بھی بدلتی ہوا کا رُخ دیکھتے ہواگر میںسادہ الفاظ میں کہوں تو تم بھی شاہوں کے ثناہ خواں ہو”۔ اس واقعہ کو گزرے کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا اور اگر وقت گزر بھی گیا تو بھی ظلم و ستم کی یہ داستان تاریخ کے سینے میں ہمیشہ تازہ رہے گی ۔ ایک ایسی داستان جو رقم ہوئی معصوموں کے سرخ لہو سے۔ ابتدا میںمیرے دوست کے کہے ہوئے الفاظ مجھے آج بھی یادہیں ۔ وہ مجھے پر الفاظ کے حملے کرتا جا رہا تھااور میں ہر گھائو کی عزیت اپنے دل پر محسوس کررہا تھامگر میرے الفاظ میںوہ وقعت نہیں، میرے قلب میں وہ رقت نہیںاور میرے الفاظ اور اعمال میں وہ مطابقت نہیں۔ میں کیا لکھوں؟کس کے نام لکھوں؟
میرے گھر صفِ ماتم بچھی ہے،میرے لوگ مر رہے ہیں،میرے شہر جل رہے ہیں،مجھے بتائے کوئی میں اس کہانی کو کیا عنوان دوں؟ میرے دوست مجھے دئیے گئے الفاظ قوم کی امانت ہیںمگر میں کیسے اُس روتے شخص کی کہانی کو صفحہِ قرطاس پہ اُتاروںجو کہہ رہا تھا: “یارو! ہم نے بیس سال میںا پنے بچوں کو پالا ہے۔ اُنہیں اس قابل بنایا کہ وہ تعلیم کے اس مقام پرپہنچ سکیں۔ مگر آنے والے کی ستم ظریفی دیکھولوگو!آنے والے نے بیس منٹ بھی نہیں لگائے اور سب ختم کر دیا”۔
میرے بھائی میں اُس ما ں کی کہانی لکھوں؟جس کے بیٹے کی نعش اُس کے سامنے ہے مگر اُس کی آنکھوں میںآنسو نہیں۔ یو ں لگتا ہے اُس ماں کا من آنسوئوں کے سمندر میں غرق ہو چکا ہے اور طوفان نے جو تباہی مچائی ہے اُس کے بعد شہر کی فضا میںہو کا عالم ہے۔ مجھے بتائو یارو!وہ ماں اب صبح سویرے کس کے لیے اُٹھا کرے گی؟کسے کہاں کرے گی؟ “اُٹھو میرے لعل سکول جانے کا ٹائم ہو گیا ہے۔ اُٹھ بھی جائو نا ماما کی جان”۔ وہ اب کس کے ہاتھ میں لنچ بکس تھماتے ہوئے کہے گی: “میرے بچے دھیان سے سکول جانا”۔ جب بچوںکے سکول سے لوٹنے کا وقت آئے گا تو دروازے کی اوٹ میں کھڑی اُداس ماں کس کا انتظار کرے گی؟ اُس باپ کو سہارا اب کون دے گا؟
Dream
جس نے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے اپنی اولاد کے لیے ۔ جو روز کہتا تھا: “میرا بیٹا بڑا ہوکر یہ بنے گا۔۔۔۔میرا بیٹا بڑا ہو کر وہ بنے گا”۔ میں اُس بہن کے آنسوئوں کا کیا کروں؟جو “بھائی اُٹھو نا۔۔۔۔بھائی اُٹھو نا۔۔۔بھائی اُٹھو نا”۔ کہتے کہتے اپنے حواس کھو بیٹھی ہے۔جس کا ہر لفظ میرے دل میں نشر کی طرح لگتا ہے جو اپنے بھائی کے لاشے سے لپٹے کہہ رہی ہے: “اب مجھے سکول چھوڑنے کون جائے گا۔۔۔؟ مجھے شہر دکھانے کون لیجائے گا ۔۔۔۔؟میری کلائیوں کے لیے چوڑیا ں کون لائے گا۔۔۔؟میں اپنی عیدیں کس کے ساتھ منائوں گی۔۔۔؟میں کس پہ مان کروں گی ۔۔۔؟ میں کس پہ جند جان نثار کروں گی “؟ کیا میںاُس بوڑھی دادی کی داستانِ غم لکھوں جس کی سانسیں ہی اُن ننھی کونپلوں کے وجود سے چلتی تھیں۔۔۔مجھے بتائو لوگو!اُس کی دنیا میں اب خوشیاں کون لائے گا۔۔۔؟اُسے اب کہانیا ں سننے کے لیے رات گئے تک کون جگائے گا۔۔۔۔؟اُسے اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے کون ستائے گا۔۔۔؟ یا میں اُس بوڑھے دادے کی بات کروں۔۔۔جسے ساٹھ سال نے اتنا بوڑھا نہیں کیاجتنا اس ایک دن نے کردیا۔ وہ سوچتا ہے : “میں اب کس کا بازوپکڑے اُسے بازار گھمانے لیجائوں گا۔۔۔؟
عیدآئے گی تو میں بکرے کی رسی کس کے ہاتھ پکڑائوں گا۔۔۔؟میں مسجد میں نماز پڑھنے کسے ساتھ لیجائوں گا۔۔۔؟” وہ سوچتا ہے کہ میں کس کا نام لیکر لوگوں کو بتائوں گا: “میرا یہ پتر ایک دن میرا نام روشن کرے گا۔۔۔اس میں ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کی لگن ہے”۔ مگر یہ سب خواہشیں تو وقت سے پہلے ہی پوری ہو گئیں اُس کا بیٹا تو ایسا عظیم ٹھہر ا کہ کہانی اُس پہ ختم ہو گئی۔ کیا میں اُن ٹیچرز کا حال سنائوں جو اُجڑتے چمن کو خونِ دل دیکر سینچتے رہے۔ بس میرے بھائیوں میرے پاس اور کچھ نہیں سوائے ندامت کے آنسوئوں کے۔۔۔۔
مجھے رونا نہیں آتا مگر آج۔۔۔۔۔!! کہاں ہے ارض و سماں مالک کہ چاہتوں کی رگیں کریدے ہوس کی سرخی رخِ بشر کا حسیں غازہ بنی ہوئی ہے کوئی مسیحا اِدھر بھی دیکھے ، کوئی تو چارہ گری کو اُترے اُفق کا چہرہ لہو میں تر ہے، زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے میرے خدایا اُن جنت کے باسیوں کے درجات کو اور بلند فر ما اور میرے ملک کو امن و سکون کی دولت سے مالا مال فرما۔