تحریر : انجینئر افتخار چودھری دونوں سے سیاسی اختلاف تھا دونوں ہی بڑے قد کاٹھ کے انسان تھے۔ دوستو!جدہ ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو اماں حوا بھی ملتی ہے اور وہ پہاڑ بھی جو یہاں سے ١٠٠ کلو میٹر دور عرفات میں ہے جہاں اماں جی اور بابا جی آدم بھی ملے تھے۔ مجھے بھی یہ دونوں مرحوم لیڈران وہیں ملے۔میری دوستی جدہ میں پیپلز پارٹی کے چودھری اشفاق گجر سے پرانی ہے۔ جناب جہانگیر بدر سے ان کے ہاں بھی ملا اور لاہور میں زمانہ ء طالب علمی میں ان سے ملاقاتیں رہیں وہ عمر میں مجھ سے دس سال بڑے تھے لگتا ہی نہیں تھا کہ بدر ٧٢ کے ہو کر اس جہاں سے چلے گئے ہیں۔ گجرانوالہ کے ہمارے ایک رشتے دار مرزا امین بیگ ہوا کرتے تھے مرحوم پکے جیالے تھے ضیاء دور میں جب پیپلز پارٹی پر عتاب آیا تو محترمہ نصرت بھٹو ان کے گھر میں رہیں۔مجھے ١٩٧٩ میں ایک بار بھائی امین نے کہا افتخار بھائی بدر صاحب سے ملنا ہے چلتے ہیں مسلم ٹائون کے گھر میں چھپتے چھپاتے گئے ان سے ملاقات ہوئی خالص لاہوری بندہ تھے بڑی دلچسپ باتیں کیں گرچہ ساری باتیں میری دل چسپی کی نہیں تھیں مگر ان کا کہنا تھا امین کارکنوں کو بچائیں مارشل لاء ہے ظلم ہے اندھیری رات ہے جو اندر ہیں ان کے گھر آٹا گھی چینی اور چائے ضرور پہنچائیں فلاں سے ملیں فلاں کو کہیں کچھ رقم دے انہوں نے دی نہیں دی البتہ میں ایک تاثر لے کر نکلا کہ کارکن آدمی ہے کارکنوں میں زندہ ہے کتنی فکر ہے اسے کارکنوں کی۔
پھر بی بی کی حکومت آئی وہ منسٹر بھی بنے جدہ آتے رہے برادر اشفاق دلشاد جانی،معین میواتی، سردار شیر بہادر چودھری شہباز حسین الطاف،شمروز فردوس عباسی کے درمیاں ملاقات ہو جاتی بس بھائی امین کا ہی حوالہ تھا ۔بی بی کا دور جیسے تیسے گزرا مگر ان کی شہادت کے بعد کارکنوں کی موت ہو گئی ناہید خان جیسی خاتون نکرے لگ گئی یہ کیا چیز تھے۔کبھی ہارتے رہے اور کبھی جیتتے مگر لاہور میں پیپلز پارٹی کا ایک موہوم مدھم سا ستارا کافی دیر ٹمٹمانے کے بعد مر گیا۔سچ پوچھیں بدر کی موت کسی کے نیچے دب جانے کی وجہ سے ہوئی ہے ان کے اوپر فراڈیوں کا ملبہ گرا وہ لوگ جو بی بی کی موت کے وقت تماشائی تھے جن کی جڑیں کسی باہر ملک کی ایجینسیوں کے ہاتھوں میں تھیں انہوں نے بدر کو بھی مار دیا۔وہ اتنے بھی گئے گزرے نہ تھے انہیں کسی ٹاک شو میں نہ آنے دیا گیا۔
وہ جب شوز میں آتے تھے تو ان کے مخالفین ان سے گھبراتے تھے جیالے سڑکوں سے ابھرے تھے۔لوگوں کے قد چھوٹے ہو جاتے تھے۔میرا اور ان کا رشتہ سڑک کا تھا میں نے بھی انہی کے دور میں لاہور سے سیاست کی اور پی ایس ایف کا گڑھ پولی ٹیکنیک لاہور جو ریلوے روڈ پر آج بھی ہماری جد وجہد کی گواہی دیتا ہے اسے جماعتیوں کا گڑھ بنا دیا۔جہانگیر بدر جاوید ہاشمی سے ہارت رہے لیکن انہوں نے بھٹو کے اولین سپاہی ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔باوثوق گواہی یہ ہے۔
PPP
پیپلز پارٹی کی ایک چھمک چھلو جسے اکثر لوگ بڈھی گھوڑی لال لگام بھی کہتے ہیں اس نے کوشش کی کہ اسمبلی میں توہین رسالت قانون کے خاتمے کا بل لایا جائے تو پیپلز پارٹی کے جو دو لوگ سامنے آئے اور کہا یہ ہماری لاش سے گزر کر پیش ہو گا ان میں ایک جہانگیر بدر تھے اور دوسرے کی عمر لمبی ہو وہ بابر اعوان تھے۔میں سمجھتا ہوں بھٹو کی بخشش اور جہانگیر بدر کی بخشش بھی اسی ایک وجہ سے ہو جائے گی ایک وہ جس نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا دوسرا وہ جس نے اس بل کی مخالفت کی۔میرے اللہ نے چاہاتو میرے پاس توشے میں یہی کچھ ہے ختم نبوت کی تحریک میں گجرانوالہ پولیس کے ڈنڈے کھانا اور گرفتار ہونا دوسرا اللہ کے پیارے نبی کے خاکوں پر عمران خان سے ضد کر کے مذمتی پریس کانفرنس کروانا۔اللہ عمران خان کو لمبی عمر دے وہ تو اس میدان کے مجاہد پہلے ہی سے تھے۔اللہ جہانگیر بدر نبیۖ کے صدقے بخش دے آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے میں ان کے دوستوں سے بھی اظہار تعزیت کرتا ہوں۔پچھلی بار بنی مالک کے ہوٹل میں بڑے قہقہے لگے تھے سردار ذوالفقار دلہہ ملک محی الدین اشفاق گجر سب تھے کہاں گئیں وہ محفلیں کدھر گئے وہ لوگ جو ہیں اللہ انہیں لمبی عمر دے آمین۔
برادر نوشروان خٹک عثمان خٹک عزیز خان اے این پی کی دوست ہماری محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے اللہ انہیں سلامت رکھے جدہ میں انہی کی طرف سے مہران کے ہال میں حاجی عدیل صاحب سے بات چیت ہوئی۔حاجی صاحب کمال کے فرد تھے میں چونکہ ہزارے وال تھا اپنے آپ کو اولیں پاکستانی سمجھتا تھا حاجی صاحب سے بڑا لمبا چوڑا مکالمہ ہوا انہوں نے کہاں کہاں سے توجیحات لا کر سامنے رکھ دیں۔میزبان اہلیان جدہ تھے میں ان سے کیسے بحث کرتا۔ایک آدھ ٹاک شوز میں ان سے نوک جھونک بھی رہی۔بزرگ سیاست دان تھے اپنے نظرئے اور سوچ کے پکے۔ ہمارا ان سے ایک ہی رشتہ تھا وہ سیاست دان ہونے کا۔
ہم تو ان کے مقابلے میں ایک طالب علم تھے۔جانا تو ایک دن سب نے ہی ہے لیکن سیاست کے روشن مینارے آہستہ آہستہ زیر زمین ہو گئے ہیں۔کے پی کے بڑے تگڑے لیڈر پیدا کئے ہیں مردان کوہستان تاریخ میں اپنا نام پیدا کر گئے نظریات سے اختلاف اپنی جگہ مگر اپنی سوچ کو اچھے انداز میں آگے بڑھانے والے لوگ اب کم ہی ہیں۔اللہ ان دو مرحوم بھائیوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔