تحریر : سجاد گل پہلی کہانی یہ ہے کہ لاہور ہاہیکورٹ نے 18 مارچ 1979ء کو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احم دخان قصوری کے قتل کے مقدمہ میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا، دوران حراست اکتوبر 1978 ء میں ذوالفقارعلی بھٹو نے جیل حکام سے اپنی حجامت کے لئے ایک حجام (باربر) کا بندوبست کرنے کو کہا، چنانچہ ایک صاف ستھرے حجام کو جیل میں حاضر کر کے بھٹو صاحب کی حجامت وغیرہ کا کام لیا گیا، جب حجامت کا کام مکمل ہو گیاتوذوالفقا رعلی بھٹو نے حجام کو کڑکتا ہوا سو روپے کا نوٹ تھمادیا،اُس دور میں حجامت اور سر کے بالوں کی کٹنگ کا معاوضہ ایک اچھاخاصاحجام ڈیڑھ دو روپے لیا کرتا تھا، حجام نے کہا بھٹو صاحب یہ سو روپے اس کام کے بہت زیادہ ہیں، ذولفقار علی بھٹو نے کہا میں تم غریب لوگوں کا لیڈر ہوں،آج اگر میرے دئیے ہوئے سو روپے سے تمہارے گھر کا چولہا جلے گا تو مجھے خوشی ہو گی، حجام نے بہتے آنسوئوں کے ساتھ بھٹو صاحب کے دئیے سو روپے قبول کر لئے۔
دوسری کہانی یہ ہے کہ 3 اپریل 1979ء جس رات ذوالفقارعلی بھٹو کو تختہ دار پہ لٹکانا تھا شام کے وقت جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد اور سیکیورٹی انچارج کرنل رفیع الدین کو کہا کہ میری گھڑی اس سنتری حوالدار مہدی خان (72پنجاب کا جوان)کو دے دینا جس نے ایمانداری کے ساتھ اپنی ڈیوٹی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔
تیسری کہانی کچھ یوں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کی آخری شام تھی رات دو بجے انھیں پھانسی دینی تھی،انہوں نے جیل کی طرف سے مہیا کیے گئے ملازم عبدالرحمان کو بلایا اور اس سے کچھ یوں مخاطب ہوئے،عبدالرحمان تمہارے ساتھ میرا وقت بہت اچھا گزرا ہے ،تم نے میری بہت خدمت کی ہے ،مجھے آٹھ گھنٹے بعد پھانسی دے دی جائے گی،یہ آخری لمحات بھی میں نے تمہارے ساتھ گزارنے ہیں اس سارے عرصہ میں کوئی غلطی خطا ہوئی ہو تو مجھے معاف کرنا، یہ سن کر عبدالرحمان رونے لگا۔
Hanging
اب آئیے چوتھی اور آخری کہانی کی طرف، غریب پرور لیڈر کو بالآخر 3اپریل 1979 ء کی رات دو بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا،جب انہیں پھانسی دی جا رہی تھی تو انہوں نے سونے کی ایک انگوٹھی پہن رکھی تھی جو انکی منگنی کی انگوٹھی تھی،پھانسی کے بعد جب کرنل رفیع الدین نے انکے ہاتھ کی طرف دیکھا تو وہ انگوٹھی غائب تھی،کرنل رفیع الدین نے یہ معاملہ جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد کے سامنے رکھا تو انہوں نے حکم دیا کہ تارا مسیح کی تلاشی لی جائے ، تارا مسیح وہ جلادتھاجس نے بھٹو صاحب کو پھانسی دی تھی،تارا مسیح کی تلاشی لی گئی تو وہ انگوٹھی اسکی جیب سے نکل آئی۔
پہلی تین کہانیوں سے اس بات کا اندازہ ذوالفقار علی بھٹو کس قدر بہترین انسان اور کتنے عظیم لیڈر تھے،یہ کہانیوں ان کی اخلاقی قدروں کی عکاسی کررہی ہیں،مہرومحبت،پیار وشفقت،ہمدردی اور خدا ترسی انکی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،اور چوتھی کہانی کا تعلق ہم سے ہے ،اس عوام سے ہے ،اور اس قوم سے ہے۔یہی ہمارا چہرہ ہے ہم اس تلخ حقیقت کو مانیں یا نہ مانیں بر حال ہم اخلاق کی انہی پستیوں پر کھڑے ہیں۔ذوالفقارعلی بھٹو سے لاکھ سیاسی اختلافات سہی،انکی کچھ پالیسیوں پر انگشت نمائی کی جاسکتی ہے، انکی کچھ عادات و انداز پر تنقید کی گنجائش نکلتی ہے۔
انسان ہونے کی حثیت سے ان سے ضرور غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں،اس میں بھی شک نہیں کہ انہیں مولویوں سے ایک خاص چِڑھ تھی،اس میں بھی دو رائے نہیں کہ انکا خواب لبرل اور روشن خیال پاکستان تھا، مگراس سب کے باوجود اس بات سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد اگر کوئی لیڈر تھا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھا،جسے ایک حجام کے چولہے کا بھی خیال تھااور ایک سنتری کے جزبات کی بھی قدر،وہ ایسا عظیم لیڈر تھا جو ایک ملازم سے معافی تلافی کی جرا ء ت بھی رکھتا تھا۔
Leader
کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب(بھٹو کے آخری 323دن ) میں لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی سے قبل اپنی پارٹی اور عوام سے مایوس ہو کر یہ کہا کرتے تھے کہ اس قوم کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہی نہیں جو ان کے بارے میں سوچتا ہو، انکے مسائل پر باریک بینی سے غوروفکر کرتا ہو،دراصل اس قوم کو زندہ نہیں بلکہ مردہ بھٹوکی ضرورت ہے، جو قوم ایسے لیڈر کی قدر کرنا نہ جانتی ہو۔
وہ انگوٹھی جو اسکی منگنی کی انگوٹھی تھی اس حال میں اتار لے کہ وہ پھانسی پر لٹکا ہوا ہو تو ایسی قوم کا کیا ہی کہنا،ایسی قوم اسی قابل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ،لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم لیڈروں سے اسے محروم کر کے آصف علی زرداری ،نواز شریف ،عمران خان اور الطاف حسین جیسے لیڈر ان پر مسلط کر دئیے جائیں،جو صرف اپنے مفادات کی سیاست کرنا جانتے ہوں،جو صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا جانتے ہوں،اور جو عوامی مصائب وتکالیف اور مسائل سے کَنی دور اپنے ہی مال بنانے کے چکر کومقصدِ حیات اور مقصدِ سیاست سمجھتے ہوں، ہو سکتا ہے آپ ان چوروں کو اپنے لیڈر اور سیاست دان سمجھتے ہوں لیکن میری نظر میں یہ سب کے سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں،اور یہ ہمارے برے اعمال کا نتیجہ اور ان کی سزا ہیں۔
Sajjad Gul
تحریر : سجاد گل dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009 D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi