ملتان (جیوڈیسک) وارث شاہ کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے دو سو سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، لیکن ان کی شاعری اور پنجابی ادب کے لئے خدمات آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ وارث شاہ 1722 میں ضلع شیخوپورہ کے علاقے جنڈیالہ شیر خان میں پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 19 سال کی عمر میں قصیدہ بردہ شریف کا پنجابی میں ترجمہ کرکے خود کو پنجابی شاعر کے طور پر متعارف کرایا۔
1766 میں شہرہ آفاق عشقیہ داستان ہیر وارث شاہ لکھی جس میں ہیر رانجھا کی محبت کے ساتھ ساتھ پنجاب کے رہن سہن، تہذیب و ثقافت اور ریت رواج کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ شیخوپورہ میں ہی وارث شاہ کو محبت ہوئی جس میں ناکامی کے بعد وہ ملکہ ہانس ساہیوال چلے گئے۔ یہاں آج بھی وہ ہجرہ موجود ہے جہاں بیٹھ کر انہوں نے ہیر لکھی۔ وارث شاہ کی داستانِ ہیر پر پنجابی زبان میں کئی ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔
بہت سے نوآموز گانے والوں نے بھی ہیر وارث شاہ پڑھ کر نام کمایا اور خود کو بطور گلوکار منوایا۔وارث شاہ کو پنجابی زبان کا شیکسپیر بھی کہا جاتا ہے۔ وہ 1798 میں جنڈیالہ شیر خان میں فوت ہوئے اور یہیں دفن کئے گئے۔ ان کے انتقال کو دو صدیاں گذرنے کے باوجود ہیر وارث شاہ آج بھی سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔