تحریر : ممتاز ملک ہر روز کی ایک نئی کہانی اور نئی چخ چخ ہم سب کی زندگی کا حصہ ہے لیکن یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ اس چخ چخ کے زمہ دار اکثر ہم لوگ خود ہی ہوتے ہیں۔ یہ تمام نہیں تو کم از کم 80 فیصد مسائل ہمارے اپنے پیدا شدہ ضرور ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکے والے تو جو حرکتیں کرتےہیں، سو کرتے ہیں اس کا تو انہیں بے شرمی سرٹیفیکیٹ مل ہی چکا ہوتا ہے ، لیکن کیا کریں کہ لڑکی والے بھی جو جو کمالات دکھا رہے ہیں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔لڑکیوں کی ماؤں کی تربیت ہی اچھی نہیں ہے جبھی تو لڑکیاں بھی ایسی ایسی توقعات شادی کے نام سے وابستہ کر لیتی ہیں کہ جو اس جنم تو کیا کسی بھی جنم میں پوری نہیں ہو سکتیں۔ ہر گھر میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد رشتوں کے انتظار میں بال سفید کر رہیں ہے۔ لیکن انہیں اپنے بلند فرمائشی پروگرام سےفرصت ہی نہیں یا انکی ماؤں کا دماغ ہے کہ انکا گھر آباد ہو کے ہی نہیں دے رہا۔
زرا فرمائشی فہرست نوٹ فرمالیں ۔ اور کوئی ایسا سپیشل پیس مارکیٹ میں دستیاب ہے تو ہمیں بھی ضرور مطلع فرمائیں ۔ شاید اسی بہانے ہمیں بھی کو ئی انوکھا نمونہ دیکھنے کو مل جائے۔ لڑکا خوب پڑھا لکھا ہونا چاہیئے ۔ (اپنے ابا جی نی ان پڑھ ہو کر بھی انہیں ڈاکٹر انجینیئر اس لیئے بنایا کہ اب وہ اپنی سے ایک کلاس کم پڑھے کو بھی ان پڑھ سمجھنے لگیں ۔ کیا بات ہے ۔ )ہینڈسم اور گڈ لکنگ ہونا چاہیئے ۔(خود صاحبزادی کو میک اپ کے بغیر دیکھ لیں تو بھوتنیاں بھی حسین لگیں ۔) قد تو 6 فٹ سے کم بلکل نہیں ہونا چاہیئے ۔(چاہے ہماری بٹیا رانی 4 فٹ کی ہی کیوں نہ ہو۔ ) 25 ، 26 سال کا ہی ہونا چاہیئے۔ (چاہے لڑکی 36 کی ہو ۔)ڈبل ماسٹر ز تو ضرور ہی کیا ہونا چاہیئے ۔ (بی بی میاں چاہیئے یا ٹیوٹر۔) بڑا سا گھر بنا چکا ہو ۔(خود چاہے کرائے کے گھر میں یا دو کمرے کے مکان میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں ) خوب روپیہ پیسہ ہو بلا شرکت غیرے ۔(خود چاہے ساری عمر ہزار کا نوٹ بھی نہ دیکھا ہو ۔) نئے ماڈل کی گاڑٰی تو ضرور ہی ہونی چاہیئے ۔ (اپنے پاس چاہے انیس سو ڈوڑھ کی گاڑٰی ہو۔)
بہن بھائی نہ ہی ہوں تو بیسٹ ہے ۔(خود کے اماں باوا نے چاہے گھر میں بچوں کا جمعہ بازار لگایا ہو ۔) اور ہاں سنئے اگر اماں باوا بھی جہاں سے رخصت ہو چکے ہوں تو اور بھی اچھا ہے ۔ اب کون ان کی آئے دن کی بک بک سنتا رہے ۔ ایسا ہو جائے بہن تو میں تمہیں سونے کے کڑے پہناؤں گی ۔ (یہ اور بات کہ بیچارے یا بیچاری میچ میکر کو کڑے تو کیا اسکی مقررہ فیس ادا کرتے ہوئے بھی ان کی اپنی جان نکلتی ہے اورفیس ادا کرنے کے بجائے اسے پہچاننے سے بھی انکار کر دیں ۔)اب آپ ہی بتائیں کہ کہ کیا ایسا رشتہ اس دنیا میں ممکن ہے ۔اس کے لیئے تو یقینا انہیں آنکھیں بند کر کے صرف خواب میں ہی بیاہ کرنا پڑیگا ۔ اور تو اور یورپ میںتو یہاں تک حال ہو گیا ہے کہ لڑکیوں کے دماغ میں ماؤں نے کیا زہر بھرا ہوا ہے کہ لڑکا 2،3 سال سے زیادہ بڑا ہے تو فورا بیٹی صاحبہ کی ناک بھوں چڑھی رائے سنائی دے گی کہ اتنا بوڑھا کتنی عجیب بات ہے کہ انہیں کی مائیں ان کے جن باپوں کے ساتھ زندگیاں گزار چکی ہیں وہ ان سے دس سے بیس بیس سال تک بڑے تھے۔ لیکن انہوں نے ان کے ساتھ 40 ، 40 سال خوشی سے گزار دیئے۔
Husband And Wife
انہیں باپوں کو یہ اپنی ماؤں کے لیئے آئیڈیل شوہر کہتی ہیں دنیا کا مثالی مرد پوچھیں تو جھٹ سے جواب آئے گا میرے پاپا۔ لیکن اپنے بچوں کو کیا یہ لڑکیاں ایسا مثالی باپ نہیں دینا نہیں چاہتیں ۔ لیکن بیٹی صاحبہ کو 2 سال سے زیادہ بڑا لڑکا نہیں چاہیئے ۔ ایسی کسی بھی بیٹی صاحبہ کو تو یہ ہی مشورہ ہے کہ کوئی لڑکا گود لے لیا کریں پہلے آپ اسے پالیں پھر وہ( آپ کے نصیب میں ہوا تو) آپ کو پالے گا ۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیٹی اچھے گھر میں جائے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اسے خوابوں کے ایسے جزیرے میں قید کر دیں کہ اس کے پاس وہاں سے نکلنے کے لیئے امید کی کوئی کشتی اور سمجھوتے کا کوئی چپُّو ہی نہ رہے اگر ہمیں واقعی اپنے بچوں سے محبت ہے تو ہمیں ان کو حقیقت کی دنیا میں لا کر ذمّہ دار بنانا چاہیئے نہ کہ اکثر والدین خصوصََا مائیں جنہیں اپنی زندگی میں 30 سال بعد بھی جو نہیں ملا ہوتا، وہ اپنی بیٹیوں کے دماغ میں انہی خواہشات کے ناگ پالنے لگتی ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ یہ ناگ انہی کی بیٹیوں کو ڈس ڈس کر ہلاک کر ڈالیںگے ۔
اسی طرح لڑکیوں کے باپ بھی اپنا دماغ زمین پر رکھیں اور اپنی شادی کے وقت کی اپنی اوقات اور حیثیت کو یاد رکھا کریں اور اپنے دامادوں سے اس بات کی توقع نہ کریں (کہ جو کچھ آپ نے چالیس سال کی محنت کے بعد بنایا ہے وہ آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے والا شادی کے وقت ہی لا کر آپ کی بیٹی کے قدموں میں ڈھیر کر دے )تو سوچیئے اگر یہ ہی سوچ آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیتے وقت آپ کی بیوی کے والدین کی بھی ہوتی تو یاد رکھیں کہ آپ بھی آج بال بچوں والے نہ ہوتے کہیں بیٹھے اپنے نصیبوں کو رو رہے ہوتے یا بد کاریوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ۔ عورت کا مقدر ہی فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر بنا دیتا ہے ۔ شادی سنت رسول ہے اسکا راستہ اپنی اولادوں کے لیئے تبھی آسان بنایا جاسکتا ہے جب ہم خود بھی حقیقت پسند بنیں اور اپنی اولادوں کو حقیقت پسند بنائیں ۔اور انہیں اپنے مقدر پر یقین کرنا اور اسے آزمانا سکھائیں ۔ جو چیز ہمارے مقدر میں ہے وہ ہمیں ڈھونڈتی ہوئی خود ہم تک آن پہنچتی ہے اور جو چیز ہمارے مقدر میں نہیں ہے وہ ہمارے پاس ہو کر بھی ہماری نہیں ہوتی۔
Child With Father
بیٹے بیٹیوں کو گناہ کی دلدل سے بچانا ہے تو انہیں جلد از جلد اپنے گھروں کا کریں ۔ ماں باپ کچھ بھی کر لیں اپنی اولاد کی تربیت تو کر سکتے ہیں اسے اچھے مقدر کی دعا تو دے سکتے ہیں لیکن ان کے مقدر کی گارنٹی نہیں دے سکتے ۔ لہذا یہ کام اللہ کے ہیں اور اللہ پر ہی چھوڑ دیں تو ہی اچھا ہو گا ۔ ہم خدا سے وہ مانگتے ہیں جو ہمیں اچھا لگتا ہے جبکہ اللہ پاک ہمیں وہ دیتا ہے جو ہمارے لیئے بہتر ہوتا ہے ۔ رشتوں کے انتظار میں ماں باپ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کب بیٹا یا بیٹی گناہ کے رستے پر چل پڑا ۔ اور اس سارے جرم میں بطور والدین آپ کا کردار کہیں بھی معافی کے لائق نہیں ہو گا ۔ اور آپ دنیا میں تو بدنام ہوتے ہی ہیں آخرت کو بھی اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر بیٹتے ہیں۔