لندن (جیوڈیسک) غزہ میں موجود حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں نے گزشتہ برسوں میں نہ صرف بنیادی راکٹوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر لیا ہے بلکہ یہ گروہ ان راکٹوں کی صلاحیت میں بھی مسلسل اضافہ کرتے رہے ہیں۔
مگر ان میں کوئی بھی راکٹ ایسا نہیں ہے جسے ایک اہم ہتھیار کہہ سکیں۔ ان راکٹوں کی اکثریت سوویت ساخت کی ہے اور بنیادی طور پر یہ تمام آرٹلری یا توپ کے ذریعے پھینکے جانے والے راکٹ ہیں۔ ان راکٹوں کی ساخت ایسی ہے کہ انھیں انفرادی طور پر نہیں پھینکا جا سکتا۔
کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں میں بڑے گولے، گراڈ اور قسّام راکٹ شامل ہیں جو بالترتیب 48 کلومیٹر اور 17 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے پاس دور تک مار کرنے والے فجر-5 راکٹ ہیں جنھیں بعض اوقات ایم-75 کی شکل بھی دی جا سکتی ہے۔
یہ زیادہ سے زیادہ 75 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں جن سے تل ابیب اور یروشلم جیسے اسرائیل کے بڑے آبادی کے مراکز کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن فجر-5 کے استعمال میں حماس کو بڑے عملی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ راکٹ نہ صرف وزن میں بہت زیادہ ہے بلکہ اس کا حجم تقریباً چھ میٹر سے بھی زیادہ ہے۔
اسی طرح نہ تو اسے ہاتھوں سے لگایا جا سکتا اور نہ ہی اسے زیادہ دیر تک اسرائیل کے ڈرونز کی نظروں سے اوجھل رکھا جا سکتا۔ دوسری طرف اسرائیل کے پاس ہر وہ جدید ہتھیار موجود ہے ، جو امریکا کے پاس ہے۔
اور اس کا کوئی ایسا حملہ نہیں ہوتا جس میں ہلاکتیں نہ ہوتی ہوں۔ برطانوی خبر رساں ادار ے کے مطابق اسرائیل کے دفاعی اقدامات اور اس کے حملوں، دونوں میں اسرائیل اپنے اس دفاعی نظام کو بہت اہمیت دیتا ہے جس کے تحت اس نے اپنے عام شہریوں کے بچاو کے لیے آہنی گنبد یا آئرن ڈوم بنایا ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق جب تک اسرائیل کا یہ نظام کامیاب ہے ، حالیہ جنگ کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی اعداد وشمار کے مطابق جمعرات کی صبح تک اسرائیل پر 255 راکٹ پھینکے گئے جن میں صرف 75 ایسے تھے جنھیں اسرائیل اپنے آہنی گنبد سے روکنے میں کامیاب رہا۔
اگر راکٹ حملے جاری رہتے ہیں تو اسرائیلی فضائی حملے بھی جاری رہیں گے اور ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ کئی عشرے پہلے فلسطینی اسرائیلی فوج پر پتھر پھینک کر اپنا غصہ نکالا کرتے تھے ، آج کے دورمیں یوں لگتا ہے کہ وہ راکٹ پھینک کر وہ ہی اپنا غصہ کم کر رہے ہیں ، کیونکہ ان سے صیہونی ریاست کا ابھی تک اس کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔