تحریر : عتیق الرحمن وطن عزیز میں مختلف چینلز اور میڈیا کو آزادی کیا ملی ہمارے اینکر پرسن صاحبان مرچ مصالحہ لگا کر خبریں چلاتے ہیں تو اس سلسلے میں اخبار نویس بھی کسی سے کم نہیں ہیں،معاشرے کی بے حسی کے باعث حالت یہ ہے کہ چودھری سرور جیسا نیک دل انسان بھی اپنے دیس میں خود کو اجنبی محسوس کرتاہے چاہیے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ،ان کی تمنائیں اور خواہشیں اسی وقت دم توڑ دیتی ہیں جب اس ملک کے ”ایسا ہی ہوتاہے ”کے تندو تیز دھارے میں غوطے لگانے پڑتے ہیں ۔ایک چودھری سرور پر کیا موقوف یہی چیز ہمارے ملک کے معروف دماغوں اور بہترین ماہرین کو بیرون ملک ہجرت پر مجبور کرتی ہے اور بہت سے دماغ اسی بے حسی کے باعث اس قوم کی ترقی کا حصہ بننے کی بجائے بیرون ملک ذہنی غلامی کو ترجیح دینے پر مجبورہوچکے ہیں جہاں کم از کم ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔
اپنے دیس میں اجنبی وہی لوگ ہیں جو ہمارے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا جذبہ اور اہلیت رکھتے ہیں ،مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کے سیاہ و سفید پر قابض اشرافیہ ایسے لوگوں کی مدد و معاونت کرنے کی بجائے انہیں دلبرداشتہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان شائد خاصے خوش نصیب تھے کہ انہیں کافی عرصہ میڈیا پر آئے بغیر کام کرنے کا موقع ملا اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرگئے ، اسی طرح ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بھی ملک و قوم کی ترقی اور ٹیکنالوجی میں نام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بھی اس ملک میں اجنبی ہیں۔یہ تو چند ایک مثالیں ہیں ڈاکٹر عبدالسلام سمیت ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن میں ملک کے بہترین دماغوں کوکام کی بجائے سازشوں کاشکار بنایا گیا ،منتخب وزرائے اعظم کو پھانسی اور جلاوطنی پر مجبور کیا گیا،سرعام گولیاں ماردی گئیں،ملک دو لخت کردیا گیا بہت سے لوگ اپنے دل میں وطن کی ترقی کے خواب لیے اندھیروں کا شکار ہوگئے نوجوان نسل جنہوں نے نام نہاد سیاسی پارٹیوں سے بہت سی امیدیں لگائی ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی ہے۔
ابھی حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر نذیر احمد سانگی کے حوالے سے میڈیا میں خبریں چلائی گئی ہیں جنہیں پڑھ کر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا، آج سے پچیس سال قبل ڈاکٹر نذیر احمد سانگی پر بھی وطن کی محبت کا بھوت سوار ہوا اور انہوں نے برطانیہ کو چھوڑ کر پاکستان میں آنے کو ترجیح دی ،اپنی محنت لگن اور تجربہ کی بنیاد پر انہوں نے تعلیمی شعبہ میں قابل قدر خدمات انجام دیں اور ایمانداری ، گڈگورننس اور لیڈرشپ کی نئی مثال قائم کی ۔سال 2009سے 2013ء چارسال تک وہ بطور وائس چانسلر اوپن یونیورسٹی خدمات انجام دیتے رہے اس دوران طلبہ کی تعداد پندرہ لاکھ تک پہنچائی ، دوردراز علاقوں میں پندرہ کیمپس بلڈنگ قائم کیں،
Poor Students
غریب طلبہ کے لیے 160ملین سالانہ کا انڈوومنٹ فنڈ قائم کیا ،جامعہ کو کامن ویلتھ آف لرننگ سے کوالٹی ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ کا سرٹیفکیٹ دلایا،جامعہ کی آمدن چار سال کے قلیل عرصہ میں دو گنا کی ، جامعہ کا دائرہ کار دوردراز اور ریموٹ علاقوں میں وسیع کرنے کے لیے ملک کے بیس سے پچیس اضلاع میں مفت زمین حاصل کی تاکہ وہاں پر یونیورسٹی کے ریجنل آفسز اور کیمپسز بنائے جاسکیں ،ملازمتوں میں میرٹ کوترجیح دی،کام چور اور نکمے لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے ، غلط کاروں کو سزائیں دیںاور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی مثال کو عملی طورپر لاگو کیا گیا۔اس دوران میڈیا پر مختلف آراء اور خبریں چلائی جاتی رہیں لیکن وہ اپنے کام میں مگن رہے ،نتیجے کے طورپر وہ اپنی بہترین کارکردگی کے باوجود جس کا اعتراف آج بھی وزارت فیڈرل ایجوکیشن کے لوگ کرتے ہیں اور جامعہ کی جانب سے گزشتہ ماہ شائع ہونے والے انگریزی نیوز لیٹر میں جو اعدادوشمار دیے گئے ہیں
وہ ڈاکٹر سانگی کے دور کے ہی ہیں ،اس کے باوجود نئی حکومت آنے کے بعد وہ اپنی ہی جامعہ میں گریڈبائیس کے معروف ماہر تعلیم ہونے کے باوجود اجنبی کی زندگی گزار رہے ہیں (ٹیلنٹ ضائع ہونا اسے نہیں کہتے تو اورکسے کہیں گے؟)۔ڈاکٹر نذیر احمد سانگی کے دور میں طلباء کو سہولیات کی فراہمی ، اور شکایات کا ازالہ بروقت کرنے پر توجہ دی گئی ، ون ونڈو قائم کی گئی ، فیس جمع کرنے کا نظام بہتر کیا ،نئے نئے تعلیمی شعبہ جات شروع کرائے گئے ، کتابوں کو سی ڈیز پر منتقل کرنے اور کاغذ،کتاب ،پارسل، میلنگ کے مسائل سے نجات کے لیے سنٹر فار انسٹرکشنل ڈیزائن (CID)کے نام پر ایک ڈیپارٹمنٹ بنایا جو ان کے جانے کے بعد بے یارومددگار پڑاہے۔
ڈاکٹرنذیرسانگی کے خلاف حالیہ مہم شروع ہونے پر تجسس ہوا کہ اصل مسئلہ کیا ہے تو پتہ چلا کہ یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبران کے انتخابات ہورہے ہیں جس میں چند ایسے لوگ بھی شرکت کررہے ہیں جن پر گزشتہ دور میں کرپشن ،کام چوری ،ہڑتالیں کرانے سمیت متعددالزامات ہیں اور ان میں ایسے بھی لوگ شامل ہیں جن کے خلاف نیب میں کیسز بھی بجھوائے جاچکے ہیں ۔ایسے عناصر کو جب ڈاکٹر سانگی نے تعاون سے انکار کیا اور اپنا ووٹ جامعہ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر کے خلاف استعمال کرنے پر سٹینڈ لیا تو یہ لوگ ان کے خلاف ہوگئے اور نیب میں ان کے خلاف اڑھائی ارب کی کرپشن کا کیس خود اپنی انتظامیہ کی منظوری لیے بغیر ہی دائر کرادیا جس میںالزام لگایا گیاہے کہ انہوں نے زمینوں کی خریداری ،عمارتوں کی تعمیر اور بھرتیوں کی مد میںاڑھائی ارب روپے خورد بورد کیے ۔کسی بھی کرپٹ کی حمایت کرنا قلم کار کو زیب نہیں دیتا
Law
کرپٹ جو بھی ہو اس کے خلاف قانون کا دائرہ تنگ لازمی ہونا چاہیے تاکہ وطن عزیز کی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے لیکن کرپشن کے بڑے بڑے اعدادوشمار میڈیا میں شائع کرنے سے قبل کم ازکم یہ دیکھ لیا جائے کہ جو الزام لگایا جارہاہے اس میں اتنے پیسے ملوث بھی ہیں یا نہیں ،راقم کو ملنے والی معلومات کے مطابق ملک بھر میں جہاں بھی نئے کیمپس یا ریجنل آفس کی زمین لی گئی ان میں چار مقامات کے علاوہ سب مفت زمین ہے جو مخیرحضرات نے تعلیمی ترقی کے لیے ڈاکٹر سانگی کی خدمات کے اعتراف میں دی اور یہ زمین مفت سرکار کو فراہم کی گئی ،دو شہروں میں زمین پہلے سے خریدی ہوئی تھی جبکہ دوشہروں میں زمین خریدی گئی وہ بھی سرکاری زمین خریدی گئی جو قواعد وضوابط اور ایگزیکٹو کونسل کی منظوری سے خریدی گئی۔
اب سوال پیداہوتاہے کہ جب زمین خریدی ہی نہیں گئی تو کرپشن کیسے ہوگئی ؟ اورصرف دو ریجنل آفسز اڑھائی ارب کے کیسے ہوسکتے ہیں؟رہی بات تعمیرات کی تو اس کی رقم ، ٹینڈر یا اخراجات کا اجراء وائس چانسلر نہیں کرتا بلکہ پراجیکٹ ڈائریکٹر ، ٹریژرر اور ایک کمیٹی ہوتی ہے جو فیصلہ کرتی ہے کہ کسے ٹینڈر دیناہے اور ٹینڈر کے بعد ٹھیکیدار کو رقم بھی وہیں سے باقاعدہ ایگزیکٹو کونسل کی منظوری سے ادا کی جاتی ہے اس پراسس کے دوران اڑھائی ارب روپے خورد بورد ہوگئے لیکن کسی کو پتہ بھی نہیں چلا کتنے افسوس کی بات ہے۔
تین سال قبل وائس چانسلر اوپن یونیورسٹی نے 180ملین روپے کی کرپشن کے حوالے سے کیس تیار کرکے نیب کو بجھوایا لیکن اس کیس پر آج تک پیش رفت نہیں ہوئی لیکن جونہی انہیں عناصر کو ووٹ دینے سے انکارکیا گیا تو اسی نیب نے انتہائی عجلت میں پریس ریلیز جاری کرکے ایک اہم ترین تعلیمی شخصیت کی ساکھ کی دھجیاں اڑا دیں حالانکہ موجودہ چیئرمین نیب کچھ عرصہ قبل وزارت تعلیم میں سیکرٹری تھے اور وہ ڈاکٹر نذیر سانگی کی کارکردگی سے خود بھی واقف ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں مقتدر شخصیات کی کردار کشی سے پہلے حقائق پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ،ادارے اور میڈیا شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے سے قبل حقائق کو مدنظر رکھیں اورموقف لینے کی بنیادی ذمہ داری سے پہلوتہی برتنے سے گریز کریں۔
Atiq ur Rehman
تحریر: عتیق الرحمن atiqurrehman001@gmail.com 03135265617