تحریر : ایم آر ملک ہم تاریخ کی سب سے بڑی سول نافرمانی کی طرف بڑھ رہے ہیں لاکھوں افراد شاہرات پر نکلے تو طاقتور اور کمزور کیلئے بنائے گئے قانون کو اپنے پائوں تلے روند ڈالیں گے حکمران جب سرمائے کے فرار کی کرپشن میں لگے ہوں تو محب وطن عناصر خود ساختہ ریاستی حدود و قیود سے باہر نکل آتے ہیں عوام کے سیل ِ رواں کے مد مقابل ڈراوے ،دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوتی ہیں ایسے میں احتجاج کرنے والوں کا جذبہ خود ساختہ قوانین کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔
یہ تاریخ کا اقرار ہے کہ حقوق سلب ہونے کا تسلسل جاری رہے تو انسانوں کا چیختا ،چنگھاڑتا سمندر سڑکوں پر ہوتا ہے ،عدل کے بغیر مضبوط ریاستوں کا ہمیشہ خواب ادھورا ہوا کرتا ہے رائے ونڈ کے شریفوں نے سرمائے کے فرار سے متوقع احتجاج کو دانستہ طاقت فراہم کی ہے محض دو ماہ سے بھی قلیل عرصہ میں رائے عامہ کے تجزیوں میں بھاری مینڈیٹ والے اپنی ساکھ کی آخری سیڑھیوں سے گرنے والے ہیں ،جعلی مینڈیٹ والوں کے ساتھ تماشہ اب ناگزیر ہو چکا کہ اُن کی لوٹ مار اور کرپشن کے عمل نے محب ِوطن عوامی حلقوں کو مشتعل اور متحرک ہونے پر مجبور کر دیا یہ موقع اور مرحلہ ہے کہ قائد کے پاکستان میں کرپشن کے خلاف پیش قدمی کو تیز کیا جائے۔
Corruption in Pakistan
کیا ہم اس سچائی کو پس منظر میں دھکیل دیں گے جو پاک عسکری قیادت کے لبوں پر یوم ِ دفاع کے موقع پر آئی کہ کرپشن اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ سے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔85کے بعد بدعنوانی ایک خاندانی نظام کی آکسیجن بن کر رہ گئی مزدور کو اُس کے حقوق دینے کی صلاحیت سے عاری ایک سرمایہ دار طبقہ اپنے مجرمانہ کاروبار کو تحفظ دینے کیلئے ایک آمر کے توسط سے کاروبارِ سیاست میں داخل ہوا مجرمانہ زندگی کو دوام بخشنے اور ایک محفوظ قانون شکنی کیلئے قانون ساز ادارے اس طبقہ کی رکھیل بن گئے۔
یہ تباہی ایک ایسا سفر ہے جس میں ممکنہ مزاحمت اور احتجاج کو اُبھرنے سے پہلے ہی اپنے لے پالک ریاستی غنڈوں کے ذریعے کچلنے کی حکمت عملی اپنائی گئی سانحہ ماڈل ٹائون اس کی واضح مثال ہے معیشت حالت ِ نزع میں ہے عالمی ساہوکار اداروں کے قرضوں کا بوجھ معیشت کے ناتواں کندھے سہار نہیں پارہے مگر مکار سیاست کے بے ہودہ حکومتی تنخواہ دار دانشور سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں دوبئی میں اپنے صنعتی ایمپائر کو وسعت دینے والے وزیر خزانہ نے اپنے سابقہ پیش روئوں کو پچھاڑ دیا ہے۔
کیا ایسا نہیں کہ ہم احمقوں کی ایسی جنت میں رہتے ہیں ؟جہاں نظام ِ زر میں اصلاحات کی گردان ہمارے بہرے کانوں میں رس گھول رہی ہے ہوس اور لالچ کی انتہاء پر کھڑا ہمارا اقتداریہ طبقہ وطن عزیز کے باسیوں کے لہو کا آخری قطرہ نچوڑنے کے درپے ہے سامراج کا حواری ایک معیشت دان جو اپنے آقائوں کا پڑھایا ہوا سبق طوطے کی طرح دہرا رہا ہے اور اس بات پر اترا رہا ہے کہ عالمی ساہوکار ادارے آئی ایم ایف میں ایک کلیدی عہدے کی نامزدگی کا شرف اُسے حاصل ہے تماشے کے اُس بندر کی طرح جو مداری کی آواز پر ناچتا ہے جس نے 18کروڑ عوام کے ٹیکسوں ،خون پسینے کے گارے سے تعمیر کئے گئے منافع بخش ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے بھائو منظور ِ نظر افراد کو بیچنے پر کمر باندھ رکھی ہے۔
یہ ٹرائکل ڈائون معیشت کا بے ہودہ مفروضہ ہے جس کے پس منظر میں مراعات ،سہولیات ،اور عیاشیوں کے تاج محل تعمیر کئے جارہے ہیں جن کے اندر بیٹھے نو دولتیئے سرمایہ دار وں کا شرح منافع بڑھتا ہی چلا جارہا ہے احتساب اور قصاص کی تحاریک کا تناظر بھی یہی ہے ہم زندہ دلوں کے شہر میں تحریک احتساب کے کاررواں اور راولپنڈی میں تحریک قصاص کے قافلے کو سیاسی جمود کو یکسر تبدیل کرنے کی صلاحیت کہہ سکتے ہیں تحریک قصاص اور تحریک احتساب محض ایک روز کی عوامی طاقت کا بہت بڑا مظاہرہ تھا خوف اور دہشت کے ہتھیار سے عوام کا حق ِ خود ارادیت چرانے والوں کے منہ پر چیچہ وطنی اور جہلم کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی عوامی پذیرائی کسی تھپڑ سے کم نہیں آنیوالے انتخابات میں تحریک انصاف کو ملنے والا کثیر ووٹ بنک ضمانتیں ضبط ہونے کی ذلت کا شاخسانہ بنے گا خون میں لتھڑی ہوئی جمہوریت کے بزرجمہروں کے ہاتھ کی چھڑی ،بکائو میڈیا کا ناٹک اور لفافہ صحافیوں کی تکرار کو سماجی انتشار کی کیفیت سے ہی موسوم کیا جا سکتا ہے۔
Dr Tahir-ul-Qadri and Imran Khan
ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے پسے ہوئے طبقات کو اُن کی حقیقی طاقت کا احساس دلایا ہے ایک ایسا احساس جو جدوجہد کو ایک خاص مرحلے پر عام فرد ِ وطن تک پھیلانے کا موجب بنتا ہے محمود خان اچکزئی جیسے ننگ ِ وطن کیخلاف کسٹوڈین آف ہائوس کا جانبدارانہ اور عمران ، جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ ایک ذہنی کیفیت کا غماز ہے اسے ہم سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے اس بات کا اظہار کہہ سکتے ہیں کہ 69برسوں سے سیاسی اُفق پر چھائی سیاست حسب روایت رعونت اور وحشت،کرپشن کے خطوط پر استوار رہے گی۔
ان دنوں ضیا ء آمریت کی فونڈری میں بننے والی ن لیگ ایک ہذیانی کیفیت سے دوچار ہے جس کی غلطیوں اور غلط حکمت عملیوں کے تسلسل نے اُسے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ عوام کا سیل رواں شاہرات پر نکلنے کیلئے بے چین ہے تحریک قصاص اور تحریک احتساب کے کاررواں نکلنے سے محض ایک روز قبل بم دھماکے کے ذریعے انسانیت کو چیتھڑوں میں بدل کر خوف و ہراس کی فضا پیدا کی گئی مگر تحریک قصاص اور تحریک احتساب میں نکلنے والا انبوہ خوف کی تمام زنجیروں کو توڑنے کا عزم لیکر نکلا اور ایک مخصوص ٹی وی چینل پر بیٹھے ریڈی میڈ تجزیہ نگاروں کے تناظر پر پانی پھیر دیا کیونکہ ہمیشہ کی طرح طاقت کا محور عوام ہی ہیں جن کے سامنے کبھی بھی کوئی ڈکٹیٹر نہیں ٹھہر سکا۔