اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں جمعرات کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں ’لائن آف کنٹرول‘ پر کشیدگی میں اضافے اور بدھ کو فائرنگ و گولہ باری میں شہری ہلاکتوں کے بعد کی صورت حال پر غور کیا گیا۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان کے مطابق بین الاقوامی برداری سے کہا گیا کہ وہ ’لائن آف کنٹرول‘ پر بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورت حال اور کشیدگی میں کمی کے لیے متحرک کردار ادا کرے۔
بین الاقوامی برداری سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’’دانستہ‘‘ طور پر شہریوں کو نشانہ بنانے اور بڑھتے ہوئے جانی نقصان کا نوٹس لے۔
بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے ہر ممکن حد تک تحمل کا مظاہرہ کیا گیا لیکن اُن کے بقول معصوم شہریوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے، خاص طور پر بچوں، خواتین، ایمبولینس کو ہدف بنانے کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
اس اجلاس انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر، وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز اور قومی سلامتی کی مشیر لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔
پاکستانی حکام کے مطابق بدھ کو کشمیر میں ’لائن آف کنٹرول‘ پر بھارتی فورسز کی فائرنگ سے کم از کم 11 شہری اور تین فوجی ہلاک ہو گئے۔
پاکستانی فوج کے مطابق کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب وادی نیلم کے قریب ایک مسافر بس بھارتی فورسز کی فائرنگ کی زد میں آئی جب کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق بھارتی فورسز کی طرف سے ایک ایمبولینس پر بھی فائرنگ کی۔
ان ہلاکتوں کے بعد پاکستان نے اسلام آباد میں تعینات بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کر اُن سے ایک بار پھر احتجاج کیا تھا۔
اُدھر پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل نمائندہ ملیحہ لودھی نے کہا ہے ’لائن آف کنٹرول‘ پر بھارتی فورسز کی فائرنگ و گولہ باری سے صورتحال انتہائی خطرناک ہو گئی ہے۔ ملیحہ لودھی نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کر کے اُنھیں صورت کی سنگینی سے آگاہ کریں گے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ مہینوں میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے میں گزشتہ ہفتے بھی دونوں جانب جانی نقصان ہوا۔ حالیہ کشیدگی میں اضافہ ستمبر میں بھارتی کشمیر میں اوڑی کے علاقے میں ایک فوجی ہیڈ کوارٹر پر عسکریت پسندوں کے ایک مبینہ حملے میں کم از کم 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ہوا۔
دونوں ملکوں کے درمیان 2003ء میں فائر بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، پاکستان اور بھارت اس معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں۔