ماہ محرم الحرام ‘ اسلامی تقویم اور تاریخ انسانی کی ایک عظیم ہجرت

Muharram

Muharram

تحریر: پروفیسر ظفر اقبال

محرم الحرام کا مہینہ اسلامی تقویم (کیلنڈر) کا پہلا مہینہ جس کی نسبت ہجرت نبویۖ کے ساتھ ہے۔ اس سن کا تقرر اور آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہیں ہوا’ نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ہے بلکہ اس کا آغاز 17 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور سے ہوا ہے۔ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہجب یمن کے والی تھے’ ان کے پاس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے احکام آتے تھے جن پر کوئی تاریخ درج نہیں ہوتی تھی۔ 17 ہجری میں ابوموسیٰ اشعری کے کہنے پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی مجلس میں یہ مسئلہ رکھا۔ کافی غوروفکر اور تبادلۂ خیالات کے بعد یہ طے پایا کہ اسلامی سن تاریخ کی بنیاد واقعۂ ہجرت کو بنایا جائے

اس کی ابتداء ماہ محرم سے کی جائے کیونکہ نبوت کے اعلان کے تیرھویں سال ذوالحجة کے وسط میں بیعت عقبہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کا پروگرام طے کرلیا گیا تھا۔ اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم الحرام کا چاند تھا۔ (فتح الباری۔ مناقب الانصار’ باب التاریخ من این ارّخوا التاریخ؟ 334/7 حدیث 3934) اسلامی تاریخ میں ہجرت کے واقعہ اور محرم الحرام کے مہینے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں جتنے بھی تقویم کے نظام موجود ہیں’ وہ یا تو کسی خاص انسان کی یوم ولادت سے وابستہ ہیں یا وہ کسی خاص واقعہ کے ساتھ وابستہ ہیں مثلاً عیسائی تقویم کی بنیاد عیسیٰ علیہ السلام کا یوم وفات ہے (ویسے وفات کا عقیدہ بھی عیسائیوں کا ہے۔ قرآن کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔

اور وہ قیامت کے قریب دوبارہ واپس آکر امت محمدیہ کا حصہ بن کر امام مہدی کی قیادت میں پوری دنیا میں غلبۂ اسلام کا کام کریں گے اور پھر وفات پائیں گے۔) یہودی سال فلسطین پر سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے واقعہ سے منسلک ہے۔ بکرمی سال راجہ بکرماجیت کی پیدائش کی یادگار ہے۔ رومی سال سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے۔ اسلامی سال ہجرت نبویۖ کے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ عظیم درس پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اللہ کی توحید کی نتیجے میں مصائب و آلام میں پھنس جائیں’ کفار جان کے دشمن بن جائیں’ قریبی رشتہ دار’ عزیز و اقارب ختم کرنے کا ارادہ کرلیں’ ایمان والوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوجائے ‘ان حالات میں مسلمان کیا کریں؟ اس کا حل اسلام نے کفر سے مصالحت نہیں رکھا بلکہ یہ تعلیم دی کہ حکمت و مصلحت سے کام لے کر اپنی زندگی کی بقا کا سامان کیا جائے’ ایسی بستی اور ایسے علاقے کو چھوڑ دینا البتہ لازم قرار دے دیا تاکہ کفر اختیار نہ کرنا پڑے اور ایمان و جان سلامت رہے۔

چنانچہ اس واقعہ ہجرت پر ہجری سال کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ توکسی انسانی برتری اور تفوق کو یاد دلاتا ہے اور نہ کسی شوکت و عظمت کے کسی واقعہ کو بلکہ یہ واقعہ ثبات قدم’ صبر و استقامت اور راضی برضائے الہٰی ہونے کی ایک زبردست مثال ہے۔ ہجرت مدینہ تاریخ انسانی کا انتہائی اہم اور رفیع الشان واقعہ ہے۔ قریش مکہ ظلم و تشدد کے ذریعے سے دین و اعتقاد کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے مگر رسول اللہ ۖ نے نہایت محکم اور متین انداز سے بتادیا کہ دین کی بنیاد علم و بصیرت ہے۔ آبائو اجداد کی تقلید اور تشدد کے حربے بنیاد نہیں بن سکتے’ جب آپ ۖ نے دیکھا کہ مکہ کے مشرکین کی ستم گری حد سے بڑھ گئی ہے اور وہ اللہ کے دین کے ابلاغ میں سنگ گراں کھڑے کر رہے ہیں

تو آپ ۖ نے اللہ کے حکم سے ہجرت کا فیصلہ کرلیا’ یہ تاریخ عالم کا وہ عظیم الشان فیصلہ تھا جس نے انسانی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کی اسلام دشمنی اور نبی کریم ۖ اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم و ستم اور انسانیت کی پامالی کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی ترویج و اشاعت اور ان کی بجا آوری میں مزاحمت ہی ہجرت کا باعث بنی۔ یہ ہجرت سارے نظام عالم کی تبدیلی کا باعث بنی مکہ کے ظلم و ستم کے دو رمیں آپۖ نے تلوار نہیں اٹھائی بلکہ مکہ جو آپ کا مرزبوم تھا’ سب کچھ قربان کرکے ہجرت کی راہ اختیار کی۔

ہجرت کا مفہوم: ہجرت کا معنی ہے چھوڑ دینا’ گناہوں کو چھوڑ دینا’ ایک علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقہ کی طرف چلے جانا’ شرعی اعتبار سے دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر ایسے علاقے میں چلے جانا جہاں دین محفوظ ہوجائے’ اس سے عام طور پر ہجرت مدینہ ہی مراد لی جاتی ہے’ اس سے مراد جس کام سے اللہ نے منع کردیا ہو’ اسے چھوڑ دیا جائے۔ ہجرت مدینہ کے اسباب: نبی اکرم ۖ کو مکہ سے بڑی محبت تھی’ آپ یہاں پیدا ہوئے’ یہیں بچپن گزرا’ یہیں جوانی بسر ہوئی’ اسی سرزمین پر آپۖ کے آبائو اجداد کی پوری تاریخ رقم تھی اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ آپ ۖ کو ہروقت اللہ رب العزت کے عظیم الشان اور بابرکت گھر کی ایمان افروز قربت نصیب تھی جسے ان کے جد امجد سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام نے تعمیرکیا تھا اور جس کی دیکھ بھال اور نگرانی کا فریضہ آپۖ کے بزرگ انجام دیتے رہے اور جس مقدس گھر کی بدولت پورے جزیرة العرب میں آپ ۖ کے قبیلے کی عزت کی جاتی تھی’ اتنی مقدس نسبتوں اور محبتوں کو چھوڑ کر کسی اجنبی جگہ چلے جانا رسول اللہ ۖ کے لئے کس طرح پسندیدہ ہوسکتا تھا’ لیکن پھر بھی ہجرت کی خاطر ان سب کو چھوڑ کر ہجرت مدینہ اختیار کی۔

1 ۔ اہل اسلام کو دارالکفر اور دار التعذیب سے بچا کر ایسے علاقے کی طرف رخ کرنا جہاں اسلام کی چھتری تلے اطمینان سے قیام کیا جا سکے اور دین اسلام کے شعائر کی پابندی میں کوئی چیز مانع نہ ہو۔ 2۔ رسول اللہۖ کفر اور شرک کو مٹانے اور اللہ رب العزت کی کبریائی اور عظمت کا پرچم بلندکرنے کے لئے شام و سحر جو عظیم الشان جدوجہد کر رہے تھے’ اس میں بیرونی طور پر چچا ابوطالب اور خانگی زندگی میں ام المومنین خدیجة الکبری آپ ۖ کے لئے بہت بڑے سہارے تھے۔ جب ابوطالب اور خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا وفات پاگئے تو ان کی جدائی کو آپ ۖ نے بہت محسوس کیا۔ ان جاں گسل اور المناک حالات و حوادث میں کفار و مشرکین مکہ نے بے روک ٹوک اپنی مشق ستم میں اس قدر اضافہ کردیا کہ وہ آپ ۖ کی جان کے درپے ہوگئے۔ ان سخت ترین حالات میں آپ ۖ کے لئے ہجرت ناگزیر ہوگئی۔

Allah

Allah

3 ۔ انصار مدینہ کی طرف سے نبی کریم ۖ اور اہل اسلام کو مدینہ آنے کی مسلسل دعوتیں دی گئیں۔ اسلام پر بیعت عقبہ اولیٰ ہوئی’ پھر بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی اور امن و سکون کے ساتھ شعائر اسلام کی ادائیگی میں تعاون کی طرف ہجرت کا دروازہ کھل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ۖ کو خواب میں آپ کی ہجرت گاہ دکھادی اور آپ کو ہجرت کی اجازت بھی عطا فرمادی۔ قَدْ أُرِیتُ دَارَ ہِجْرَتِکُمْ رَأَیْتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَیْنَ لَابَتَیْنِ ” مجھے تمہارا دار ہجرت دکھایا گیا ہے۔ وہ ایک شور زدہ کھجوروں والی زمین ہے’ جو دو سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیان واقع ہے۔ (صحیح بخاری 2297) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے’ نبی اکرم ۖ نے فرمایا: رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ أَنِّی أُہَاجِرُ مِنْ مَکَّةَ ِلَی أَرْضٍ بِہَا نَخْل فَذَہَبَ وَہَلِی ِلَی أَنَّہَا الْیَمَامَةُ أَوْ ہَجَرُ فَِذَا ہِیَ الْمَدِینَةُ یَثْرِبُ (صحیح بخاری 3897′ صحیح مسلم 2272) ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کر رہاہوں’ میرا خیال تھا کہ وہ یمامہ یا ھجر ہوگا’ لیکن وہ مدینہ یثرب ہے۔

مدینہ جو اب مدینة الرسول بن گیا تھا’ مسلمانوں کے لئے امن ‘ چین اور سکون کا مرکز بن گیا’ مسلمانوں کے تمام کام اور تاریخ ہجرت کے سال سے شمار ہونے لگے’ مظلومیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر مسلمان اللہ کی عظمت و شان کیلئے نہایت حوصلہ مندی’ بہادری اور جانثاری کے ساتھ جہاد کے عظیم عمل میں شریک ہوگئے’ بدر و حنین’ احد و خندق’ خیبر و فتح مکہ ‘یہ سب کچھ ہجرت کے ثمرات تھے’ جس ہجرت نے مسلمانوں کے لئے جہاد و قتال کے دروازے کھول دیئے۔ دس سال کے قلیل عرصے میں ستاسی چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں’ ستائیس معرکوں اور جنگوں میں خود نبی مصطفی ۖ شریک ہوئے’ کمزوری وکسمپرسی کا دور ختم ہوا’ ہجرت مدینہ کے بعد چہار دانگ عالم میں توحید کے پھریرے لہرانے لگے’ جزیرة العرب شرک سے پاک ہوا۔ 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا’ دعوت دین اب اور ہی انداز میں دنیا پر چھانے لگی’ ایران ‘ عراق’ شام’ مصر فتح ہوئے’ افریقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا’ مشرق میں ہند اور مشرق بعید تک مسلمان جا پہنچے’ روس اور چین کے بڑے بڑے علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔ سپین اور قسطنطنیہ پر مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہوئیں’ یہ سب کچھ ہجرت کے بعد ہوا اور مسلمانوں کو عظمت ملی۔ شرک کا نام و نشان مٹ گیا۔ یہ د ھرتی اللہ کے باغیوں اور نافرمانوں سے پاک ہوگئی۔

ماہ محرم الحرام کی وجہ تسمیہ: اسلامی سال جسے قمری یا ہجری سال بھی کہا جاتاہے’ کا پہلا مہینہ ماہ محرم ہے۔ قمری مہینوں کے نام زمانہ جاہلیت سے چلے آرہے ہیں سوائے محرم کے اس کا نام صفر اول تھا جسے تبدیل کرکے محرم رکھا گیا’ اسے شہر اللہ قرار دینے کی بھی یہی وجہ بیان کی گئی ہے۔ (الدیباج للسیوطی 113/3) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس مہینے کی حرمت میں تاکید پیدا کرنے کے لئے اس کا نام محرم رکھا گیا ہے۔ کیونکہ عرب اسے کسی سال حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کی جگہ دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دے لیتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر407/2) فضیلت1۔حرمت والا: قرآن کریم نے چار مہینوں کو حرمت والا قرار دیاہے ‘ان میں سے ایک محرم ہے۔

اللہ رب العزت نے فرمایا نَّ عِدَّةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللَّہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِی کِتَابِ اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْھَا أَرْبَعَة حُرُم (التوبہ 36:9) ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہی ہے۔ اللہ کی کتاب میں جس دن سے ا س نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا’ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ان چار حرمت والے مہینوں کی وضاحت اور تعیین کے لئے رسول اللہ ۖ نے فرمایا: السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا مِنْہَا أَرْبَعَة حُرُم ثَلَاثَة مُتَوَالِیَات ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادَی وَشَعْبَانَ سال میں بارہ مہینے ہیں’ ان میں سے چار حرمت والے ہیں’ تین مسلسل (لگاتار) ذوالقعدہ ‘ذوالحجة’ محرم اور (چوتھا) رجب مضر ہے جو شعبان اور جمادی (الاخری) کے درمیان ہے۔ 2۔ شھر اللہ : نبی مکرم ۖ نے محرم کو شھر اللہ کہاہے۔ یہ اعزاز کسی اور مہینے کو حاصل نہیں ہے۔ (صحیح البخاری: 3197′ صحیح مسلم 1679) أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَہْرُ اللَّہِ الْمُحَرَّمُ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں۔ (صحیح مسلم: فضل صوم المحرم: 163) 3۔ محرم قمری سال کا پہلا مہینہ ہے جس سے سن ہجرت کا آغاز ہوا۔ مسنون اعمال: محرم میں کثرت سے نفلی روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ نبی کریم ۖ نے فرمایا : افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم” رمضان کے بعد افضل ترین روزے محرم کے ہیں۔

2 ۔ یوم عاشوراء کا روزہ رکھا جائے۔ اس سے گزشتہ سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا وَصِیَامُ یَوْمِ عَاشُورَاء َ أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِی قَبْلَہُ (صحیح مسلم 1162) یوم عاشوراء (دسویں محرم) کا روزہ میں اللہ کے بارے میں امید کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ برس کے گناہ معاف فرمادے۔
3۔ اس مہینے میں ظلم و جور سے اہتمام کے ساتھ بچنا چاہئے’ بچنا تو ہر وقت چاہئے۔ لیکن خاص طور سے حرمت والے مہینوں میں گناہ کا جرم زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا فَلَا تَظْلِمُوا فِیْھِنَّ أَنْفُسَکُمْ۔ان مہینوں میں اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو۔ (التوبة 36/9) اس روز رسول اللہ ۖ خاص طور سے روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ یہود کی مخالفت میں فرمایا (صُومُوا یَوْمَ عَاشُورَاء َ وَخَالِفُوا فِیہِ الْیَہُودَ صُومُوا قَبْلَہُ یَوْمًا أَوْ بَعْدَہُ یَوْمًا) عاشوراء کا روزہ رکھو لیکن یہودیوں کی مخالفت بھی بایں طور کرو کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد ایک روزہ رکھو” (مسند احمد 241`/1 ) یہ حدیث مرفوعا ً ضعیف ہے لیکن عبداللہ بن عباس کا اثر ہے جو صحیح سند سے مروی ہے۔)

ایک اور حدیث میں ہے جب رسولۖ اللہ نے عاشورے کا روزہ رکھااور مسلمانوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ تو صحابہ نے آپۖ کو بتلایا کہ یہ دن تو ایسا ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں۔ تو اس پر رسولۖ اللہ نے فرمایا۔ (لئن بقیت الی قابل لاصومن التاسع) اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ ضرور برضرور رکھوں گا۔ (صحیح مسلم۔ 1134) صحیح سند میں ابن عباس کا ایک قول ہے۔ خالفوا الیہود وصوموا ا لتاسع والعاشر یہودیوں کی مخالفت کرو اور نو اور دس محرم کا روزہ رکھو۔ (مصنف عبدالرزاق 287/4 حدیث 7839) ہجرت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا عظیم واقعہ ہے ‘ محرم کے مہینے سے مسلمانوں کے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ ان دونوں مسائل کی حیثیت’ اہمیت اور فضیلت بیان ہوچکی ہے’ مسلمان امت کے ہاں جشن ‘غم خوشی کی دوسرے مذاہب کی طرح رسمیں نہیں ہیں ۔ مسلمانوں کا ہر عمل ہی عبادت ہے۔ ہجرت بھی حکم الہٰی سے ہوئی اور ماہ و سال کا نظام بھی اللہ کے حکم سے چل رہا ہے۔ محرم کی حرمت بھی اللہ ہی نے متعین کی ہے’ اس مہینے کی نویں ‘ دسویں کا روزہ بھی بندگی اور عبادت کا ہی ایک طریقہ ہے۔ خوشی ہویا غم ‘ ہر حال میں اللہ کا حکم ہی اصل حیثیت رکھتا ہے’ مسلمان اس دور میں کفر کی غلامی اور پستی کا شکار ہیں’ ان کے اثرات تہذیب اور ثقافت میں صاف نظر آتے ہیںجن سے بچنا ضروری ہے۔

Islam

Islam

اسلام یہ نہیں کہ اسے صرف عبادات اور نماز روزے تک محدود رکھا جائے بلکہ اخلاق ‘ عادات’ تہذیب و تمدن’ آداب’ سیاست’ معیشت اور معاشرت میں بھی اسلام کی پیروی کی جائے۔ صد افسوس کہ مسلمانوں نے اپنی اصل کو چھوڑ کر ان عظمت اسلام کے موقعوں پر بھی خود ایجاد کردہ رسموں کو دین سمجھ لیا ہے جن کو ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ سیدنا حسین کی شہادت یقینا تاریخ اسلام کی ایک بڑی مظلومانہ شہادت ہے لیکن سیدنا امیر حمزہ اور سیدنا عثمان کی شہادتیں بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر مظلومانہ ہیں’ اس لئے اس ماہ کو صرف حضرت حسین کی شہادت سے خاص کرلینا کسی طرح بھی اسلام کو مطلوب نہیں اور پھر ماتم’ تعزیہ اور ایسی دوسری بے شمار بدعات جن سے خود حضرت حسین اور اہل بیت روکتے رہے’ ان کا ارتکاب کرنا اسلام اور اہل بیت کی سیرت کے منافی ہے اور پھر انہی بدعات و رسومات کی وجہ سے ملک فرقہ وارانہ کشیدگی کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت پر چلنے اور بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تحریر: پروفیسر ظفر اقبال

برائے رابطہ: 0333-

4289005