تحریر : زاہد محمود ارض پاک میں موجود حکمران طبقہ ان دنوں ہڑتالوں کا سامنا کر رہا ہے۔ کسان، ڈاکٹر، تاجر بھی اب ہڑتال پر ہیں۔ سب کے اپنے اپنے مسائل ہیں لیکن ان کے مسائل کی نوعیت کو اگر دیکھا جائے تو سب کی ایک ہی ہے اور وہ ہے ” معیشت ” کسان اپنے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہونے کا رو رہا ہے جبکہ ڈاکٹر حضرات کا یہ کہنا کہ لاکھوں روپے خرچ کر کے ہمیں ہماری قابلیت کے مطابق تنخواہ اور الاؤنس دیئے جائیں تاکہ کسی کو بدعنوانی کرنے کا بہانہ نہ ملے ۔ تاجر طبقہ حکومت کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس کی وجہ سے احتجاج کر رہا ہے اور حکومت کے اوپر یہ زور دے رہا ہے کہ انکے اوپر عائد کردہ ٹیکس ظالمانہ ہے انھیں ختم کیا جائے ذیل میں ان تینوں طبقوں کے مسائل اور حکومت کے مشکلات کاذکر کرنے کی کوشش کرتے ہیں آپ میں سے ہر اک کو اختلاف کا حق ہے جو کہ مجھ سے تحریری اور تقریری دونوں صورتوں میں کیا جاسکتا ہے۔
کسان طبقہ وہ طبقہ ہے جوہمارے لئے اناج اگانے کی خاطر اپنا پسینہ کھیتوں میں بہاتا ہے اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ سورج کی تپش کیا ہے اسے فکر ہوتی ہے تو صرف اس بات کی کہ بے وقت کی گرمی اور بے وقت کی بارش اسکی فصل کو نقصان نہ پہنچا ئیں ایسا ہونے کی صورت میں اسکی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے موسمی تغیرات نے تو کسانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے ارض پاک جسکی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت ہے اور زراعت سے متعلقہ طبقہ اگر اس وقت مشکلات سے دوچار ہے تو یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ اس ملک کی آبادی کی اکثریت اس وقت معاشی پریشانی میں مبتلا ہے حکومت کی طرف سے ایسی کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی ابھی تک سامنے نہیں آئی جسکو دیکھ کر یہ اندازہ کیا جاس کے کہ حکومت معاشرے کے اس طبقے کے مسائل کو کوئی اہمیت دے رہی ہے۔
جسکی وجہ سے زراعت کے پیشہ سے متعلقہ لوگ مکمل دلجمعی سے کام نہیں لے رہے کسان کو یا تو اپنی محنت کے ضائع ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے اور اگر خوش قسمتی سے اسکی فصل تیارہو کر مارکیٹ میں پہنچ بھی جائے تو اسکے مناسب دام اسکے لئے بہت بڑا مسئلہ ہوتے ہیں سرمایہ دار طبقہ متحرک ہو جاتا ہے اور کسانوں سے ایک مخصوص قیمت میں انکی فصل خرید لی جاتی ہے اور سرمایہ دار اسکو گوداموں میں محفوظ کر کے یا تو بیرون ملک اسمگل کر دیتا ہے یا پھر اسکی مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرکے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں جس سے مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے اور کسان طبقہ جس نے اپنی فصل اس وقت فروخت کی ہوتی ہے جب وہ مارکیٹ میں وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے کی قوت خرید متاثر ہوجاتی ہے اور وہ مہنگی کھاد اور مہنگی بجلی استعمال کرنے کی وجہ سے قرضے کے بوجھ میں دب جاتا ہے جو کہ ہر آنے والے سال میں بڑھتا ہی جاتا ہے جس سے ہمارے کسان طبقے کا استحصال ہوتا ہے لیکن کہیں بھی اسکی شنوائی نہیں ہوتی کچھ سفید پوش لوگ تو اپنی زمینوں کا کچھ حصہ بیچ کر یہ خسارہ پورا کرتے ہیں اپنا پیشہ وہ تبدیل نہیں کر سکتے اور اگر کرنا چاہیں بھی تو انکے پاس راہنمائی کا کوئی ادارہ نہیں ہوتا۔
Doctors Strike
دوسرا طبقہ جو کہ اس وقت احتجاج کر رہا ہے وہ میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے نرسز تو کافی عرصے سے اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکل رہی تھیں مگر پچھلے کچھ عرصے سے ڈاکٹر بھی انکے احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں حکمران طبقہ اپنے لئے مختص وسائل میں سے تو کٹوتی کرنے کو تیار نہیں جبکہ اس طبقے کے الاؤنسز اور تنخواہ میں سے کٹوتی کر دی جاتی ہے جس سے ایماندار لوگوں کے لئے کام ایمانداری سے کرنا مشکل ہو جاتا ہے ایک ڈاکٹر بننے کے لئے کسی نوجوان کے والدین کن مشکلات سے گزرتے ہیں اسکا اندازہ ائیر کنڈیشنڈ ڈرائنگ روم میں بیٹھے پالیسی میکرز نہیں کر سکتے جب ایک نوجوان مشکل حالات سے گزر کر ایک نوجوان ڈاکٹر بن جاتا ہے تو جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک انجینئر نوکری کے حصول کے کچھ عرصے کے بعد اچھے خاصے بینک بیلنس اور بلند معیار زندگی کا مالک بن جاتا ہے ڈاکٹر ہوں یا کسی بھی دوسرے پیشے سے تعلق رکھنے والے انسان آخر وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ انکے مالی حالات ایسے ہوں کہ وہ معتدل معیار زندگی کو اپنا سکیں جبکہ ڈاکٹر حضرات کی تنخواہیں اور الاؤنسز اس حد تک کم ہوتی ہیں کہ ایک غریب آدمی کے لئے بھی ان میں گزارہ کرنا مشکل ہوتا ہے اسکے برعکس حکومت میں موجود وزراء و ممبران پارلیمنٹ لاکھوں روپے فی کس ماہانہ اس قوم کے پیسوں سے لے رہے ہوتے ہیں تو اپنے لئے جائز مطالبہ کرنا ڈاکٹرز کا حق ہے اور وہ اس شرط پر کہ کسی قسم کی بدعنوانی کے مرتکب نہیں ہونگے لہٰذا انکی تنخواہ اور الاؤنسز ممبران اسمبلی کے برابر تو کم از کم کی جانی چاہئیں۔
دوسری جانب حکومت کی حالت یہ ہے کہ حکومت کی آمدنی کم ہے اور اخراجات آمدنی سے بہت زیادہ تو ایسے میں حکومت انکے جائز مطالبات ماننے کی پوزیشن میں نہیں اور اپنی آمدنی کو اپنے اخراجات کے برابر کرنے کے لئے اسکے پاس عوام سے ٹیکس لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا جب وہ ٹیکس لگانا چاہتی ہے تو وہ طاقتور طبقہ جو کہ اس نظام کو تحفظ فراہم کر تا ہے وہ اپنے اوپر ٹیکس نہیں لگنے دیتا اسکا نتیجہ ایسی قانون سازی کی صورت میں نکلتا ہے جس سے ٹیکس کا بوجھ عام تاجر پر زیادہ پڑتا ہے ایک عام تاجر جو پہلے ہی توانائی اور دہشت گردی کے ہاتھوں بحران کا شکار ہے احتجاج پر مجبور ہوجاتا ہے اسکے پاس اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ سڑکوں پر آئے یہ درست ہے کہ کوئی بھی حکومت ٹیکس کی صورت میں اکٹھی کی جانے والی آمدنی کے بغیر نہیں چل سکتی بلکہ اسکے بغیر تو ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ٹیکس دینے والے طبقے کا یہ بھی حق ہے کہ اسے پتہ ہو اسکا ٹیکس کہاں پر خرچ ہو رہا ہے۔
ٹیکس لگانے میں انصاف سے کام لینا ہوگا ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں لاکھوں لوگ ایسے موجود ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے ان سے اگر ٹیکس وصول کر لیا جائے تو 600 ارب روپے ملکی خزانے میں جمع ہو سکتے ہیں اسی طرح بہت سے اداروں اور شخصیات کو ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے جو کہ ایک تخمینے کے مطابق 475 ارب روپے کے قریب بنتی ہے درج بالا دونوں طریقوں سے اگر ٹیکس وصول کر لیاجائے تو ہمارے بجٹ کا خسارہ تقریباُ ختم ہوجاتا ہے اور کسی بھی حکومت کے لئے ارض پاک کو ایک فلاحی ریاست کی تشکیل دینا نا ممکن نہیں رہتا لیکن جب حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ہو ، عوام کے پاس ان سے کسی بھی بڑے پروجیکٹ کے بارے میں خرچ کی جانے والی رقم کی درست اور تفصیلی معلومات نہ ہوں اور جو معلومات ہوں انکے مطابق ایک مخصوص طبقے کو نوازا جا رہا ہو تو لوگ بہ حالت مجبوری تو ٹیکس دیں گے لیکن خوشی سے نہیں اور جو کام بھی مجبوری سے کیا جائے تو اس میں سے چوربازاری کا رستہ ضرور نکل آتا ہے لہٰذا ملک کو صحیح ڈگر پر چلانے کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز حکومتی سطح پر سادگی کا اختیار ہے اور عوام کے پیسوں پر شاہ خرچیوں سے گریز ہے اسکے بعد ایسے منصوبے جو کہ ملکی معیشت پر بوجھ ہوں نہ بنائے جائیں اسکے مقابلے میں ایسے منصوبے بنائیں جائیں جس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے مفاد کا خیال رکھا جا سکے۔
عوام سے ٹیکس لینے کے لئے حکمران طبقے کو مثال بننا ہوگا اور خود زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینا ہوگا لہٰذا اس معاملے پر سیاست چمکانے کے بجائے ایک جامع اور مؤثر پالیسی وضع کی جائے تاکہ ملکی معیشت بھی درست ہو اور عوام الناس کا بھی بھلا ہو اور ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کا خواب جسکی تکمیل میں لاکھوں عزتیں تار تار ہوئیں اور ہزاروں جانوں کے نذرانے پیش کیے گئے کی تکمیل کی جا سکے۔ یاد رہے کہ ایک فلاحی ریاست کے لئے اسلامی ہونا ضروری نہیں لیکن ایک اسلامی ریاست کے لئے فلاحی ریاست ہونا لازم و ملزوم ہے۔