اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی صوبہ بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی کے قریب پٹڑی پر نصب بم کے پھٹنے سے مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس واقعے میں 4 افراد ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے ہیں۔ جعفر ایکسپریس راولپنڈی سے کوئٹہ جا رہی تھی۔
حکام نے بتایا ہے کہ اس دھماکے بعد کراچی سے کوئٹہ جانے والی مسافر ٹرین بولان میل کو بھی ڈیرہ مراد جمالی پر روک لیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق حفاظتی انتظامات کے پیش نظر بلوچستان سے اندرون ملک کے لیے دیگر ٹرینوں کی آمدورفت بھی فی الحال معطل کردی گئی ہے۔
ڈیرہ مراد جمالی پولیس کے ایک سینیئر اہلکار ایس ایس پی عرفان بشیر کے مطابق بم دھماکے سے ٹرین کی 6 بوگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ضلع نصرآباد کی تحصیل ڈیرہ مراد جمالی سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ربیع کینال کے علاقے میں یہ دھماکہ ہوا ہے۔ شدت پسندوں نے ٹرین پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا ہے۔ بم ریلوے ٹریک پر نصب کیا گیا تھا۔ دھماکے سے ہلاک ہونے والے چار افراد میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ۔‘‘
ایس ایس پی عرفان نے مزید بتایا کہ بم حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق صوبہ سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہے۔ ان کے بقول، ’’دھماکے سے ریلوے ٹریک کا 3 سو فٹ سے زائد حصہ متاثر ہوا ہے۔ پٹڑی سے اتر جانے والی بوگیوں سے مسافروں کو کرین کے ذریعے باہر نکالا گیا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیم نے بتایا ہے کہ اس بم حملے میں بہت ہی شدید قسم کا دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا گیا ہے اسی لیے ٹرین کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔‘‘
بم دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے نصیرآباد کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن بھی شروع کردیا ہے۔ اس دوران اب تک 11 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مشتبہ افراد سے بم دھماکے کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں گی۔
ڈپٹی کمشنر نصیر آباد قربان علی مگسی نے بتایا ہے کہ بم حملے کے بعد ضلع بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’یہ دہشت گردی کا ایک انتہائی ہولناک واقعہ ہے۔ امن دشمنوں نے بے گناہ مسافروں کو بربریت کا نشانہ بنایا ہے۔ دھماکے کے بعد اعلیٰ سطحی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ حملے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔‘‘
قربان علی مگسی نے بتایا کہ مسافر ٹرینوں پر حالیہ حملے دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا حصہ ہیں۔ ان کے بقول،’’دیکھیں بلوچستان میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں سے قیام امن کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ اب شدت پسند اکثر سافٹ ٹارگٹس یعنی آسان اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔ دو دن قبل بھی اسی ٹریک پر پولیس نے ایک ریموٹ کنٹرول بم بروقت برآمد کر کے ناکارہ بنا دیا تھا۔ شدت پسندوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے سکیورٹی ادارے اقدامات کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس صورتحال میں جلد نمایاں بہتری آئے گی۔‘‘
دھماکے کے ایک عینی شاہد غلام رسول کھوسہ، جو حادثے کا شکار ہونے والی ٹرین میں سوار تھے، نے بتایا ہے کہ بم دھماکہ عین اس وقت ہوا جب ٹرین عزیز بلو نامی چیک پوسٹ کے قریب سے گزر رہی تھے۔ ڈی ڈبلیو کو آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا،’’میں ٹرین کے پچھلے حصے کی ایک بوگی میں سوار تھا۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے ہماری بوگی کے اندر دھماکہ ہوا ہے۔ دھماکے کے ساتھ چیخ وپکار کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت بھی بعض زخمی افراد کو مقامی اسپتال منتقل کیا۔‘‘
غلام رسول نے بتایا کہ دھماکے کی وجہ سے پٹڑی سے اتر جانے والی ٹرین کی بوگیوں میں کئی افراد پھنس گئے تھے، جنہیں بعد میں کرین کے ذریعے ٹرین سے نکالا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا، ’’دھماکے کے بعد امدادی ٹیمیں کافی دیر سے موقع پر پہنچیں اگر ریسکیو ورکرز وقت پر پہنچ جاتے تو شاید جانی نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔‘‘
سکیورٹی امور کے تجزیہ کار مجیر ریٹائرڈ عمر فاروق کے بقول مسافر ٹرینوں پر حملوں کی روک تھام کے لیے حکومت کو جامع حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’دیکھیں اس وقت بلوچستان میں موجودہ حالات کے تناظر میں اگر بات کی جائے تو ریلوے لائنوں کی سکیورٹی حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ ان طویل ریلوے لائنوں کی سیکیورٹی کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ آج ڈیرہ مراد جمالی میں ریلوے ٹریک پر جو حملہ ہوا ہے وہ بھی بعض سکیورٹی نقائص کے وجہ سے پیش آیا ہے۔ اگر ٹریک کی سویپنگ کا عمل بروقت مکمل کیا جاتا تو ممکن ہے یہ حملہ ناکام بنا دیا جاتا۔‘‘
عمر فاروق نے بتایا کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شدت پسند مسافر ٹرینوں پر حملے کر کے موجودہ حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بقول،’’بلوچستان میں بدامنی کے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے حال ہی میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت انسداد دہشت گردی کی جو کارروائیاں تیز کی ہیں یہ حملے ان کارروائیوں کا ردعمل بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
ڈیرہ مراد جمالی میں ہونے والے اس تازہ حملے کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے۔ماضی میں اسی نوعیت کے حملوں کی ذمہ داری علیہدگی پسند بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔