قدرت کے بے نظر ہاتھ سے سجے بلند و بالا کہساروں ،رنگ برنگی آبشاروں اور تاحد نظر چہار سو پھیلے پرکشش اور دلکش سبزہ زاروں کی حسین و جمیل دھرتی” کہوٹہ “پر جنم لینے والے پختہ فکراور سچے جذبوں کے خوبصورت نوجوان شاعر نویدفداستی کا پہلا شعری مجموعہ” دل جہاں دریا ہوا ” میرے سامنے ہے ۔ نوید فداستی سے کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن اس شعری مجموعے کا مطالعہ کرنے کے بعدان سے ملاقات کی خواہش سینے میں یوں مچل رہی ہے کہ جیسے کوئی بچہ کسی شے کی جلد طلب میں شور ،واویلہ اور ہنگامہ بپا کرتا ہے ۔
کل رات چراغوں کو جلایا گیا شاید سورج کی نگاہوں میں ستاروں کا دھواں ہے پڑھتاہوںمیں شعلوں پہ نما زِشبِ ہجرت جلتے ہوئے ماتھے پہ عبادت کا نشاں ہے
فدا کی شاعری میں گہری فکر اور وسیع سوچ کا جو رنگ ملتا ہے وہ نوجوانی کی اس عمر میں بہت کم تخلیق کاروں کے حصہ میں آتا ہے ۔ وہ اپنے اشعار میں بے ساختگی کے ساتھ ،کمال روانگی سے غیر محسوس انداز میں ایسی پر مغز بات کہہ جاتے ہیں کہ جس سے قاری پر حیرت و وجدکی وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ بہت دیر جس میں ڈوبا رہتا ہے ۔
لکھا ہوا تھا کہیں کل من علیھا فان یہی ہے حرفِ یقیں کل من علیھا فان وجودِ گلِ کو سنائی تو دے رہی ہو گی صدائے قلبِ حزیں کل من علیھا فان لرز ر ہے ہیں دروبام ،بام و در ہو کر فغاں مکان و مکیں کل من علیھا فان میں اپنے آپ کو دائم سمجھنے والا تھا جھکا رہا ہو ں جبیں ، کل من علیھا فان
نوید فدا ستی کو قدرت نے بیان و اظہار کا وہ ملکہ او ر سلیقہ عطا کیا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل مشاہدے اور تجربے کو بھی شعری پیرائے میں ڈھالنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں ۔حالانکہ اس صلاحیت کے حصول اور جہانِ سخن میں اس مقام تک پہنچنے کے لیے طویل ریاضت درکار ہو تی ہے۔ نوید فدا کے فن کا تجزیہ کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بڑی عمر کے انتہائی زیرک شاعر کے فلسفہ ،فکر اور تصورات و خیالات پر بات ہو رہی ہے ۔ میں رہوںگا دیے کے ساتھ یہاں کیا جلیں گے ہوا کے ہاتھ یہاں مرنے والو پلٹ کے دیکھو ذرا کاٹتا ہے کوئی حیات یہاں اگلے وقتوں میں دل تھا سینے میں اب دھڑکتی ہے کائنات یہاں
فدا ایک مکمل شاعر ہیں ۔ مکمل شاعر اسے کہا جاتا ہے جو زیست کے ہر پہلو ،کائنات و حیات کے ہر منظر اور زمانے کے تمام تغیرات کا تجزیہ اور مشاہد ہ تخلیقی نگاہ سے کرنے کی تاب رکھتا ہو ۔ یقینا یہ ایک جدا گانہ طرزِ فکر اور ایک منفر د خداداد صلاحیت ہے، جو منتخب اور نامور شعراء ادباء کا خاصہ ٹھہرتی ہے ۔
اِک تسلسل سے مناظر نظر آتے ہیں مجھے عشق ہر خواب کو زنجیر بنا دیتا ہے درد سے عذر نہ بر تو کہ یہی در د اکثر میر کو میر تقی میر بنا دیتا ہے میں اسی اسم کی برکت سے ہوں سرشار فدا جو اندھیرے کو بھی تنویر بنا دیتا ہے
دنیا کے ہر نام ور فلسفی ،پختہ تخلیق کا ر ، سنجیدہ فکر دانش ور اور ہر بڑے شاعر ادیب کی یہ دیرینہ خواہش اور خواب ہوتا ہے کہ دنیا امن کا گہوارہ بنے ۔تما م عمروہ اسی جدوجہد اور تگ و دو میں سر گرداں اور مصروفِ عمل رہتا ہے کہ انسان کسی طرح کائنات میں اپنے آنے کے بنیادی اسباب کو سمجھ سکے اور باہمی رسہ کشی سے اجتناب بر تنا سیکھ پائے ۔یہ تبھی ممکن ہوتا ہے کہ جب انسان کا شعور اس قدر بلند و بے دارہو کہ وہ اناکے خول اور ذات پات کے بند پنجرے سے باہر نکل کر کھلی آنکھ او ر کھلے ذہن سے معاملات ِ کائنات پر غورو فکر کرے ۔شہرہ آفاق شاعر احمد فراز کے اس شعر کے مصداق ۔
شکوئہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
نویدفدا بھی گویا اس باب میںاپنے حصے کی شمع جلائے ہوئے ہیں اور اس ضمن میں ان کی خواہش اور تمنا بھی یہی ہے ۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔
وہ باغ راہ میں پڑتا ہے ، جنگ سے پہلے جہاں سے پھول خریدوں گا میں عدو کے لیے
اردو زبان و ادب کی معروف شخصیت اور ممتاز شاعر افتخار عارف نوید فدا کی شاعری کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
” مجھے ذرا ہٹ کے مشکل زمینوں میں شعر کہنے والے اچھے لگتے ہیں۔ رواں زمینوں میں خراب غزل لکھنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور یہ کام آج کل بہت ہو رہا ہے ۔ ایسے میںفدا کی غزل دیکھی تو دل سے دعا نکلی ۔ عام ڈگر سے ہٹ کے سطحی جذباتیت سے پہلو بچاکرشعر کہہ دینا آسان کام نہیں ہوتا ہے ۔ پہلی کتاب میں اتنے اچھے شعر کم ،کم نظر آتے ہیں ۔ میں نے اس نوجوان کی تحریریں پہلے نہیں دیکھی تھیں ۔اب یکجا مسودہ دیکھا ہے تو جی چاہتا ہے کہ دنیا کا ہر صاحبِ ذوق اس سے ضرور متعارف ہو ۔ لفظ کی پہچان اور زمین کا انتخاب اچھی غزل میں خوشگوار تبدیلیاں تو پیدا کرتا ہی ہے ۔ ایک ایسی تازگی سے بھی روشناس کر تا ہے۔ جو اچھے شاعر کا نصیب ہوتی ہے “۔
نوید فدا کے ہاں نعتِ رسولِ مقبول ۖ کہنے کا بھی ایک الگ انداز ملتا ہے ۔
خامشی میں بھی صدا ہے ورفعنا لک ذکرک ہر طرف گونج رہا ہے ورفعنا لک ذکرک میم کا حرفِ مقدس بھی صحیفوں سے ہے افضل اورالف حرفِ الٰہ ہے ورفعنا لک ذکرک چاہتا ہوں کہ محمدۖ کی شفاعت مجھے مل جائے یہ مِرا دستِ دعا ہے ورفعنا لک ذکرک
نوید فدا کا تخلیقی سفر پوری آب و تا ب کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ دعا ہے کہ وہ اسی طرح سخن کی دنیا کو اپنے افکارِ تازہ سے تا دیر سنوارتے رہیں۔
جل رہے ہیں دھواں نہیں ہوتے کیوں کہ ہم بد گماں نہیں ہوتے میری آنکھوں میں ڈھوندتے ہو کسے پانیوں پر نشاں نہیں ہوتے کام آجاتے ہیں کہیں نہ کہیں وسوسے رائگاں نہیں ہوتے ڈھونڈیے ہم کو ڈھونڈیے صاحب ہم وہاں ہیں جہاں نہیں ہوتے