دنیا کی تیسری بڑی زبان اردو ہے۔ اردو زبان برصغیر میں پھلی اور پھولی ہے کہ اب اس کا شہرہ دنیا کی اعلیٰ تین زبانوں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔اردو زبان کی امتیازی صفت و شان یہ ٹھہری کہ اس کو مسلمانوں کی تیسری زبان بننے کا موقع بھی میسر آیا۔برصغیر پاک و ہند میں انگریز نے جہاں عربی و فارسی پر شب خون مارتے ہوئے ان کو ناپید کرنے کی کوشش کی وہیں پر وہ اردو کو خالص مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہوئے معدوم کرنے کے لیے بھی کمربستہ ہوئے۔جس کی وجہ سے سرسید احمد خان نے تحریک آزادی کے دوران اس بات کا احساس کرلیا تھا کہ ہندواردوزبان سے نفرت کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ٹھہری تھی کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی زبان کا کوئی دھرم یا کوئی ملک نہیں ہوتابلکہ اس کو جو بھی اختیار کرلے وہ اسی کی زبان بن جاتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمدعلی جناح نے اس بات کا دقت نظر سے احساس کیا کہ ملک کے مغربی و مشرقی حصہ کو باہم یکجان و قلب بنانے کے لیے ایک رابطے کی زبان ہونی چاہیے تو اس کے لیے انہوں نے اپنی کابینہ کے متفقہ فیصلہ سے اردو زبان کو ملک کی قومی زبان قراردیا ۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے تمام دساتیر میں بالعموم اور بالخصوص 1973ء کے آئین کی شق نمبر 251میں واضح طورپر درج کردیا گیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اس کو بتدریج 15سال کے اندر ملک میں دفتری و قانونی اور تعلیمی زبان بنایا جائیگا۔پھر صدر ضیاء الحق مرحوم کے عہد میں مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اردو زبان چونکہ بہت وسیع و عمیق اور لچکدار بھی ہے میں سائنسی علوم کی ان اصطلاحات و تفصیلات کو جو انگریزوں نے مسلمانوں سے عربی میں حاصل کرکے انگریزی میں کردی ہیں کو اردوکے قالب میں ڈھالتے ہوئے ملک میں قومی زبان کی تنفیذ کی راہ ہموار کی جائے۔
2015ء میں محترم کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی کوشش و محنت کے نتیجہ میں سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس (ر)ایس جواد خواجہ نے فیصلہ سنایا کہ پاکستان کی حکومت کے پاس کوئی راہ فرار نہیں بجز اس کے کہ وہ ملک میں فی الفور قومی زبان کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی دفتری و قانونی اور تعلیمی زبان اردو کو قراردیتے ہوئے تمام وزارتیں اور حکومتی ادارے اپنے خط و کتابت اور بنیادی معلومات اردو میں منتقل کریں۔تحریک نفاذ اردو پاکستان نے بانی پاکستان ،آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے خالص ملی و قومی مفاد کے تحفظ اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا عزم کرتے ہوئے ملک میں قومی زبان کو عزت دو کی جدوجہد کا آغاز کیا۔تحریک نفاذ اردو پاکستان(تناپ)کا قافلہ سوشل میڈیاپر آگہی مہم، قومی زبان کی ضرورت و اہمیت کو اجاگرکرنے کے لیے سیمینار و ورکشاپس،ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کرانے اور ارباب اختیار پر اردوزبان کے نفاذ کے عوامی مطالبہ کو ثابت کرنے کے لیے 2کروڑ افراد سے دستخط حاصل کرنے جیسی سرگرمیوں کا اہتمام کرتی رہی ہے اور تاحال یہ جدوجہد جاری ہے۔
تحریک نفاذ اردو پاکستان کے سرپرست محمد اسلم الوری، صدر عطاء الرحمن چوہان، معتمد سید مطاہر زیدی،نمیر مدنی،سلطان گجر،عبدالحق ڈاکٹر ساجد خاکوانی اور راقم( عتیق الرحمن)سمیت سیکڑوں عہدیدران و کارکنان نے اردو رسم الخط کو اختیار کرنے اور رومن رسم الخط کی حوصلہ شکنی کرنے اور دفتری و روزمرہ کی اردو زبان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے جیسے متعدد موضوعات پر جن میں اردو زبان کی افادیت کو عیاں کرنے کی کوشش کی گئی کو رقم کرکے ملک کے جرائد میں نشر کرنے کا انتظام کیا اور خودراقم نے ملک میں اعلیٰ سطح مقابلہ جاتی امتحان (سی ایس ایس)کے قومی زبان میں لیے جانے کے موضوع پر13-12-2018کو قلم کو جنبش دی۔اللہ کا فضل و کرم ہے کہ تحریک نفاذ اردو پاکستان نے اپنی جدوجہد میں پہلی منزل کو کامیابی سے سرکرلیا ہے ۔ملک میں سی ایس ایس کا امتحان اب اردو میں بھی دیا جاسکے گا۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سینٹ میں یہ قرارداد پیش کی کہ ملک میں سی ایس ایس کا امتحان اردو زبان میں لیا جائے۔اور انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ملک کے جس بھی طاقتور و ترقی پذیر ملک کو دیکھ لیں اس نے ترقی کی منازل طے کی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ قومی زبان میں ملک کے تمام امور چلانے کے ساتھ تعلیم بھی قومی زبان دینے کی بدولت حاصل کی ہے۔کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی عوام اور حکمران ترقی و اقبال مندی کے طالب تو ہیں ہی مگر اپنی قومی زبان کو عزت دینے کی بجائے انگریزی و چائنی زبانوں کو سیکھنے میں ساری توانیاں صرف کررہی ہیں۔پاکستان میں تعلیم یافتہ ہونے کے لیے انگریزی زبان کا جاننا لازمی ہونے کے ہیولہ تصور کو ختم کرنا ہو گا۔
سراج الحق کی قرارداد میں معمولی ترمیم کے ساتھ حکومت کی اجازت سے قرارداد متفقہ طورپر منظور کرلی گئی کہ آئندہ سے سی ایس ایس کا امتحان اردو زبان میں بھی دیا جاسکے گا۔قومی زبان کو عزت دلانے پر سینیٹر سراج الحق صاحب اور تناپ کی قیادت اور تناپ کے ساتھ مشترکہ طورپر قومی مسئلہ کو اجاگرکرنے میں تعاون کرنے والے سبھی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔لیکن کام بھی باقی ہے آئین و قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق ملک میں اردو زبان کو قانونی، دفتری اور تعلیمی زبان کے طورپر نافذ کرانا باقی ہے ۔ابھی ہمت و محنت کا دامن نہیں چھوٹنا چاہیے۔