تحریر: قاضی کاشف نیاز 1947 ء میں جس طرح اسلامیان ہندوستان ایک ہی نظریے’ایک ہی جذبے’ایک ہی نعرے اور ایک ہی مقصد ومشن لاالٰہ الااللہ پر متحد و متفق اور یکجان ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے تھے اورآخراس کاصلہ ونتیجہ انہیں 27 رمضان 14 اگست 1947ء کے مبارک دن پاکستان جیسی آزاد خودمختار مملکت کے تحفے کی صورت میں ملاجہاں وہ کسی کافر’غیرمسلم ‘ہندو’انگریز کے ماتحت اور غلام بن کر نہیں بلکہ ایک آزاد وخوددار مسلمان اور اقبال کے شاہین ومرد مجاہد کی طرح سر اٹھا کر اپنی زندگی گزار سکتے تھے۔ آج یہی منظر مقبوضہ جموں کشمیر میں بپا ہے۔
پورا کشمیر اس وقت ایک ہی نظریہ لاالٰہ الااللہ پر متحد ہو کر ہندو سامراج کے خلاف اٹھ کھڑاہے اور بھارت آٹھ لاکھ درندہ فوجیوں کو کشمیریوں پرمسلط کرنے کے باوجود ان کے جذبۂ حریت و آزادی کو کچلنے میں ایسا بری طرح ناکام ونامراد ہو چکا ہے کہ اسے کرفیو کی پابندیاں بھی اٹھاناپڑگئی ہیں۔ یہ کشمیریوں کی بحمداللہ بہت بڑی جیت ہے۔کشمیریوں کے باہمی اتحاد اور قربانیوں کایہ ثمرہے کہ آج ان کے حق میں پوراپاکستان ہی امڈکرباہرنہیں آچکابلکہ خود بھارت کے اندربھی پہلی بار کشمیریوں کے حق میں بھارتی ہندو اور سکھ بھی مظاہرے کرنے پرمجبور ہوگئے ہیں۔کلکتہ میں ہزاروں افراد کشمیریوں کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔سکول وکالج کے طلباء وطالبات’بائیں بازو کی جماعتوں’ انجمنوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے ارکان نے کشمیر میں ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کیااور کلکتہ یونیورسٹی کے باہر دھرنادیا۔کشمیرکی آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین معروف جگہ کالج سکوائر میں جمع ہوئے۔انہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھارکھے تھے جن پر کشمیرمیں حق خودارادیت کی حمایت اور ہلاکتیں بند کرنے کے نعرے درج تھے۔جلوس نے مختلف بازاروں کے چکر بھی لگائے۔
Kashmiris
اس طرح کاایک مظاہرہ تامل ناڈوکی خواتین نے بھی کشمیریوں کے حق میں کیا۔مظاہرین نے بینراٹھارکھے تھے جن پرمقبوضہ کشمیر میں قتل عام کاسلسلہ بند کرنے اور انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے مطالبات تھے۔ مسلم انجمنوں’تامل ناڈو کی حقوق نسواں تنظیموں’ توحیدالجماعت ‘انسانی حقوق کی تنظیموں’طلباء انجمنوں اور رضاکار تنظیموں کی خواتین نے ایک بہت بڑا جلوس نکالاجو مقبوضہ علاقے میں قتل عام اور پیلٹ گن کے ذریعے کشمیریوں کو نابیناکرنے کے خلاف نعرے لگارہی تھیں۔مقررین نے کہا کہ پیلٹ گن کااستعمال بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بدترین مثال ہے۔24جولائی کوامرتسرمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر متعدد سکھ تنظیموں جن کی قیادت سرکردہ سکھ لیڈر کررہے تھے’ نے سرینگر سے مارچ شروع کیا اور وہ کشمیر کی طرف روانہ ہوگئے لیکن لکھن پور کے قریب انہیں روکا گیا۔پنجاب کے مختلف صوبوں میں سکھوں نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا’ انہیں اس بات سے خاصا دکھ پہنچ رہا ہے کہ کشمیر میں عام شہریوں کو ہلاک کیاجارہا ہے اور ایسے مہلک ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں جن سے کشمیری نوجوان نابینا ہوجاتے ہیں یا عمر بھر کے لئے معذور بن جاتے ہیں ۔پاپل پریت سنگھ جو یوتھ اکالی دل کے آرگنائیزنگ سیکرٹری ہیں’ نے میڈیاکو بتایا کہ سکھوں کی ایک بھاری تعداد جو کشمیرکوانڈیا ملانے والے اکلوتے راستے پر آنا چاہتی تھی’ جب لکھن پور چیک پوسٹ تک پہنچ گئی تو پولیس نے ان کو روکا اور آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔
سکھوں کے اس دستے کی قیادت شرومن اکالی دل امرتسر کے صدرسردار سمرن جیت سنگھ مان کررہے تھے۔اس موقعے پر اخباری نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوے شرومنی اکالی دل کے سیکرٹری جنرل پروفیسر مہندر سنگھ پال نے کہا ‘پولیس کی طرف سے ان کو بلاوجہ کشمیر جانے سے روکا گیا ۔انہوںنے کہا کہ جب وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کشمیر جاسکتے ہیں اور یاتری وہاں جاکر پوجا کرسکتے ہیں تو ہم بحیثیت شہری کشمیر کیوں نہیں جاسکتے ۔انہوںنے کہا کہ کٹھوعہ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے سکھوں کو لکھن پور میں روکنے کے احکامات صادر کئے ۔پروفیسر مہندر پال سنگھ نے کہا کہ ہم نے کٹھوعہ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی ۔پاپل پریت سنگھ نے کہا کہ ہم نے وہاں مفت لنگر قائم کیا ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سکھوں کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔لکھن پور میں سکھوں نے بڑے بڑے بینر نصب کیے ہیں جن پر لکھا گیا ہے کہ کشمیر میں قتل عام بند کرو او ر یہ بھی لکھا گیا’ سکھ کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔
Kashmir Issue
کشمیریوں کی اس تحریک کے اثرات بحمداللہ یہاں تک پھیل گئے ہیں کہ جہاں مقبوضہ کشمیر میں آئے روز پاکستانی پرچم لہرایا جاتاہے’بھارتی مظالم کے خلاف نفرت کااظہارکرنے کے لیے خودبھارتی ریاست بہارمیں بھی ایک گھرکی چھت پر پاکستانی پرچم لہرادیاگیا جسے بعدازاں پولیس نے اتروادیا۔دوسری طرف آزادیٔ کشمیر والحاق پاکستان کی یہ تحریک صرف کشمیروبھارت تک محدودنہیں رہی بلکہ بھارت سے بھی باہرپوری دنیامیں پھیل گئی ہے۔ ترکی کے دارالحکومت انقرہ اور آسٹریلیا میں سڈنی کے مقام پر لوگوں نے کشمیر میں عام شہریوں کی ہلاکت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر خاموش دھرنا دیا گیا ۔برمنگھم اور پیرس میں بھی کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر شاہراہوں پر بینر نصب کئے گئے اور دھرنا دیاگیا۔ دنیا بھر میں معروف امریکی دانشورنوم چومسکی نے کہاکہ مظالم کی انتہاہوچکی ہے’اب بھارتی فوج کشمیر سے نکل جائے۔
انسانی حقوق کے علمبرداردانشور نوم چومسکی کاکہناتھاکہ بھارت نے 1980ء میں انتخابات کا ڈھونگ رچایاتھا’اس کے بعد سے بھارتی فوج نے کشمیریوں پر بدترین مظالم ڈھائے ہیں۔ایم آئی ٹی میں کشمیری ادیب سے گفتگو کرتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ پاکستان اور بھارت کوکشمیرکی آزادی پرمتفق ہوناچاہیے۔ادھر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ’یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون بھی کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرتشویش کااظہارکرنے پرمجبور ہوگئے۔غرض کشمیریوں کی تحریک کے یہ اثرات بتارہے ہیں کہ جس طرح ہندؤوں کے مظالم جو ں جوں بڑھتے گئے’حصول پاکستان کی منزل بھی اسی قدر قریب ہوتی گئی’ اسی طرح آج بھارتی درندہ صفت حکمران مودی کی شہ پر بھارتی فوج کے بدترین مظالم بھی کشمیرکی آزادی اورالحاق پاکستان کی منزل کوقریب تر کر رہے ہیں۔یہ نوشتۂ دیوار آج ساری دنیاکونظرآرہاہے۔ کشمیر دراصل ہے ہی تقسیمِ برصغیرکانامکمل ایجنڈا…جب تک کشمیرکی تقدیر کافیصلہ نہیں ہوجاتا’ برصغیر اسی طرح سلگتارہے گا۔یہ تقسیمِ برصغیرکے ایجنڈے کوپورا کرنے کاتقاضا بھی ہے اورتکمیلِ پاکستان کی ضرورت بھی۔
آج بھارت کے اندر سے یہ آوازیں تیز ترہوتی جارہی ہیں کہ جوناگڑھ’ مناوادر ‘ حیدر آباد دکن’کشمیراورناگالینڈ جیسے علاقوں پر بھارت نے بالجبر قبضہ جمارکھاہے۔ بھارت کویہ علاقے چھوڑنا ہوں گے۔افسوس کہ بھارتی انصاف پسندلوگ تواپنی حکومت کوہی آئینہ دکھارہے ہیں لیکن ہماراسیکولرطبقہ خصوصاً میڈیا حیدرآباد’جوناگڑھ’مناوادر تودورکی بات’ کشمیرپربھی کھل کربات کرنے سے شرماتا اور گریزاں ہے۔ اسی بات کی طرف امیرجماعة الدعوة حافظ محمدسعیدنے بھی حالیہ دنوں میڈیا پرسنزکی ایک کانفرنس میں بجاطورپرتوجہ دلائی کہ بھارت کا تو ہرچینل اور اخبارپاکستان کے خلاف معمولی سے معمولی بات کوبھی بڑااچھال اچھال کر شہ سرخیوں میں اشتعال انگیزانداز میں بیان کرتاہے لیکن ہمارااکثرمیڈیا کشمیریوں کی آج اتنی بڑی تحریک کی خبرکوبھی آخری درجوں میں رکھتا ہے۔
Kashmir Protest
ہم سمجھتے ہیں کہ آج کشمیریوں کی تحریک جس مقام پرپہنچ گئی ہے ‘اب اسے پاکستان کے مقتدرطبقہ اور میڈیا سے تھوڑی سی بھی مناسب حمایت مل گئی تو اس تحریک کو اپنی منزل تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ان شاء اللہ۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِیکجہتی میں پوری قوم یک آواز اور یک زبان ہو۔کل بھی اتحاد وایمان سے ہی پاکستان کی منزل ملی تھی توآج بھی کشمیریوں کی آزادی کاسپیدۂ سحر اتحاد وایمان سے ہی طلوع ہونا ہے۔