بہت سال پہلے کی بات ہے میرے ہمدمِ دیرینہ اقبال زرقاش کے ساتھ پینٹ شرٹ میںملبوس ایک نوجوان میرے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سے ڈائری تھی اور خارزار صحافت میں وہ نوارد تھا۔اُس وقت اسکی تعلیم اورم عاشرتی حیثیت بہت واجبی سی تھی مگر اسکی آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کا لازوال عزم جھلک رہا تھا۔ وہ اَتائیوں، رشوت خوروں،ملاوٹ کرنے والوں، فحاشی کے سرپرستوں ا ور سُرخ فیتے کے خلاف جہاد کے راستے پر گامزن ہوا چاہتا تھا۔میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور دل میں خواہش کی کہ کاش یہ نوجوان اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے پر بھی توجہ دے۔
پھر وقت کی گرد میں اس کا چہرہ گم ہو گیا اور میں بھی غم دوراں کے جھکڑ جھولوں میں جانے کہاں کہاں اُڑتا پھرا اور پھر کئی سال بعد جب وہ نوجوان دوبارہ مجھ سے ملا تو میں اُسے پہچان نہ پایاکہ وہ ایک جواں رعنا بن چکا تھا اور اعلی تعلیم سے آراستہ ہو چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس نے شادی کر لی ہے،ماس کیمونیکشن میں فرسٹ کلاس ڈگری لے لی ہے اور ایل ایل بی بھی کررہا ہے۔
وہ جو اُردو میں اٹک اٹک کر بولتا تھااب انگریزی بھی فر فر بول رہاتھا اور اعتما د اس کی شخصیت سے چھلک چھلک پڑ رہا تھا۔ عملی صحافت کو اُوڑنا بچھونا بنانے کے ساتھ ساتھ وہ ایک کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کر رہا تھا اور ذاتی گاڑی ، پُرتعیش گھر، عزت ، شہرت اور بہترین معاشرتی حیثیت بھی حاصل تھی، تب میں نے دیکھا کہ وہ صحافت کو عبادت اور خدمت خلق سمجھ کراپنا جہاد بالقلم جاری رکھے ہوئے تھا۔
جب اسکی پہلی کتاب “کمرہ نمبر ایک سو نو”ترتیب کے مراحل میں تھی تب وہ اقبال زرقاش کے ساتھ پھر میرے پاس آیا اور اپنی کتاب پر پیش لفظ مجھ سے لکھوانے کی خواہش ظاہر کی۔ اپنی تساہل کیشی کی بنا پر میں نے پیش لفظ تو نہیں پس ورق لکھنے کا وعدہ کیا اور جب اس کی کتاب شائع ہوئی تو اس کا نسخہ لے کر میرے پاس بذاتِ خود آیا اور اُس کی خوشی دیدنی تھی تب میں نے اُسے کہا”شہزاد حسین بھٹی مبارک ہو”۔ آج وہی شہزاد حسین بھٹی صحافت کی بہت سی منزلیں مار چکا ہے اور وہ صرف ایک قلم کار نہیں بلکہ صاحب سیف و قلم ہے ۔ وہ اپنی قلم سے تلوار کا کام لے رہا ہے۔جھوٹ ،فریب، دغا ، مکاری پر مبنی سیاست اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ ملک و قوم کے خلاف وہ ایک بات نہیں سن سکتا۔لوٹ مار کرنیوالے سیاست دان، حکومتی عہدے دار اور اعلیٰ سرکاری افسران کی گرفت کرنے میں وہ کسی مصلحت کا شکار نہیںہوتا۔ وہ جہاں حکومتی اقدامات کو سراہتا ہے، وہاں ذرا سی غفلت اور عوامی مفاد پر آنچ آتے دیکھتا ہے تو وزیر اعظم کو بھی نہیں بخشتا۔
سچ لکھتے ہوئے اس کا قلم شمشیر بے نیام بن جاتا ہے اور ڈر ، خوف اور مصلحت اُسے چھوکر بھی نہیں گزرتے۔ وہ جوشیلا اور انقلابی بن کر لکھتا ہے تو جدوجہد اور جستجو کا استعارہ بن جاتا ہے۔ پاک فوج، قانون نافذکرنے والے اداروں کا تقدس اس کی پہلی ترجیع ہے اور دہشت گردی اور ملک دشمنی جیسے عوامل پر وہ ہراساں ہونے کے بجائے ان واقعات کے خلاف کھل کر لکھتا ہے اور پاکستان دشمن عناصر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتا ہے۔
وہ پر خطر ماحول اور نادیدہ دشمنوں سے نقصان پہنچنے کی بات پر بھی کھل کر قہقے لگاتا ہے اور اس کا لہجہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ دبنگ ہو جاتا ہے۔ شہزاد حسین بھٹی بہت خوش نصیب ہے کہ اسے ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور اعلیٰ پائے کے فنکاروں کی رفاقت ملی ہے اور اس کے ادبی موضوعات پر لکھے کام بھی خاصے متاثر کن ہو تے ہیں۔ اسکی کتاب دوستی بھی قابل مثال ہے اور پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں بھی وہ صحافت اور ادب کی خدمت میں کسی سے پیچھے نہیں۔گذشتہ سال اسکی دُوسری کتاب اٹک کے ذہنی و جسمانی معذور شاعر خالد عنبر بیزار کی شخصیت اور فن پر “چاندنی سے دِیا جلاتے ہیں”منصہ شہود پر آئی ہے۔ جس میں اس نے اپنے دوست اقبال زرقاش کے ساتھ مل کر اس شاعر کا کلام تنکا تنکا اکھٹا کر کے کتاب کی شکل میں محفوظ کیا ہے۔ یہی نہیںبلکہ اس شاعر کے لیے وظیفہ بھی اکادمی ادبیات سے منظور کروایا ہے۔ جو کہ یقینا اس عہد وحشت میں بہت بڑا کام ہے۔
شہزاد حسین بھٹی کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے مہربان والدین، اساتذہ اور ایثار پیشہ دوست اللہ پاک نے عطا کیے ہیں۔ جو شہزاد کو خوش دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوتے ہیںاور اسے غمزدہ دیکھ کر دکھی ہو جاتے ہیں۔ یہ سب لوگ یقینا شہزاد کے لیے دُعا کرتے ہونگے مگر میں یقینا اس کے لیے نیک خواہشات رکھتا ہوں۔ دُعا ہے کہ شہزاد کو اللہ تعالیٰ عزت، امن اور سکون عطا کرے۔ امین