طالب علم کا مقصد تعلیم کیا ہونا چاہئے

Student

Student

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
‘طالب علم’ کا لفظ جب استعمال کیا جاتا ہے، تو اس سے مراد کسی یونیورسٹی، کالج، یا اسکول میں پڑھنے والا ہی لیا جاتا ہے، جس میں مدارس بھی شامل ہیں۔طالب علم کی اہمیت کیا، اس بارے جاننے کے لیے ہم کو علم کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن کی سب سے پہلی آیت جو اللہ نے اپنے نبی ۖپر نازل فرمائی وہ اسی تعلیم سے متعلق تھی، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑ ا کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے (علم ) سکھایا، جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔” (سورةعلق)”اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں ،جو علم رکھتے ہیں۔” (سورةفاطر)علم وہ لازوال دولت ہے کہ جس کی بنیاد پر حضرت آدم علیہ السّلام کو مسجود ِملائکہ بنایا گیا۔

علم کی بہت سی اقسام ہیں ،مختصر جتنی بھی اقسام ہیں اگر کوئی ان کو سیکھتا ہے اور ان کو سیکھنے کا مقصد فلاح انسانیت ہے تو اسے علم نافع کہا جاتا ہے ۔علم حاصل کرنے والے کو طالب علم کہا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں 17 نومبر کو طالب علموں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔طالب علم کسی بھی ملک ،قوم،معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،کیونکہ ان کے ہاتھوں میں ملک و قوم کی زمام کار ہوتی ہے ۔آج کو ملک و قوم کی مذہبی و سیاسی رہنمائی ،رہبری فرما رہے ہیں، وہ ماضی میں طالب علم تھے اور جو آج کے طالب علم ہیں، انہوں نے آنے والے دنوں میں ملک و قوم کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے ۔اس لیے علم کے متلاشی یا سیکھنے کے عمل سے گزرنے والے، ہر شخص کو طالب علم کہا جاتا ہے۔

Education

Education

بیشتر ممالک میں عموماً سیکھنے کا عمل پانچ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے ، جب بچے کو ابتدائی اسکول ،مدرسہ ،کسی ہنر کی ورکشاپ میں پڑھنے ،سیکھنے کے لئے داخلہ دلایا جاتا ہے ۔ اب تک ہم نے صرف دو باتیں کی ایک یہ کہ علم سے کیا مراد ہے, دوم طالب علم کسے کہتے ہیں ۔طالب علم کو علم سیکھانے والے کو معلم یا استاد کہا جاتا ہے اور جس نصاب یا نظام کے تحت و علم حاصل کر رہا ہے ۔اس کا بھی گہرا تعلق طالب علم سے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستا ن میں 68 سال میں ہماری کسی بھی حکومت نے تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی جو اہمیت دی جانی چاہئے تھی ۔ اس لئے تعلیمی لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے پست ترین ممالک میں ہوتا ہے۔

ہمارے تعلیمی اخراجات بجٹ حقیت میں دو فیصدسے بھی کم ہیں، ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت کا معقول انتظام نہیں۔ نظامِ تعلیم میں غریب اور بے سہارا بچوں کیلئے صرف مذہبی مدارس ہیں ۔ انگلش میڈیم سکولز میں اسلامی تعلیم کا فقدان ہے اور اسلامی مدارس میں جدید تعلیم کا فقدان ہے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔

ایک مسلم طالب علم کے لئے دن بھر کی روٹین کیاہو ؟ ایک طالب علم کو صبح سویر ے اٹھ کر نماز فجر ادا کرنی چاہئے ۔اس سے پہلے ورزش،چہل قدمی کریں ،نہا کر تھوڑی دیر مطالعہ کریں۔اس حوالے سے میں مثال دوں گا، پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم (جامعہ ہمدرد کے بانی حکیم محمد سعید شہید )، طبیب اور ادیب ساری عمر رات دس بجے سو جایا کرتے تھے اور علی الصباح چار بجے تہجد سے قبل اْٹھ جایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جب وہ سندھ کے گورنر بنے تب بھی اسی نظام الاوقات کی پابندی کرتے رہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے وہ واحد طبیب تھے ،جو اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں نماز فجر کے بعد کلینک کیا کرتے تھے۔ کوشش کریں کہ رات دس ساڑھے دس تک لازماً سو جائیں اور چھہ تا سات گھنٹوں کی نیند کے بعدپانچ ساڑھے پانچ بجے اْٹھ جائیں۔موسم کے حساب سے وقت بدل سکتا ہے ۔نیند سات گھنٹے لیں۔

Society

Society

ایک طالب علم کا مقصد تعلیم کیا ہونا چاہئے ۔خود آگاہی یاتلاش حقیقت ہی تعلیم کا اصل مقصد ہے، لیکن اب مادیت یا دولت نے اس کی جگہ لے لی ہے ،جس سے معاشرے میں خود غرضی سرائت کر گئی ہے اور آج طلبہ کو سماج کے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ایسا فرد بننا جو دین و دنیا میں کامیاب ہو سکے۔جو دوسروں کے لیے زیادہ سئے زیادہ نافع ہو جس کا راستہ حقوق العباد سے ہو کر گزرتا ہے ۔اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں ۔۔۔اس جہاں میںہے۔.۔ زندگی کا مقصد اوروں کے نام آنا۔۔. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ اپنے ملک کے تعلیمی نظام سے خوش ہیں؟جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ہی وقت میں بہت سے نظام تعلیم رائج ہیں ۔کوئی ایک نظام تعلیم نہیں ہے ۔یہ ہی حال دینی مدارس کا ہے ۔اتنے نظام تعلیم ہوں تو ملک کے مسقبل کی آبکاری کیا ہونی ہے۔

اس لیے ارباب اختیارات سے گزارش ہے کہ ملک میں ایک ہی نظام تعلیم رائج کیا جائے ۔ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے ؟اس پر علماء و دانشوروں کے سینکڑوں تحاریر دستیاب ہیں۔سب سے پہلے تو تعلیم میں بیرونی دبائوکا خاتمہ کیا جانا چاہئے۔اردو زبان میں نصاب ترتیب دیا جائے ۔ اپنی قومی زبان میں تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔پورے ملک میں ایک نصاب تعلیم ہو ،جو پرائیویٹ ادارے ہیں وہ بھی اپنے سکول و کالج میں اسی نصاب کے ذریعے تعلیم دیں۔ملک میں تعلیمی معیار کی تنزلی کی وجہ اس شعبے میں بہتری لانے کے لیے حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے۔

Akhtar Sardar Chaudhry

Akhtar Sardar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال