اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں طلبہ کے جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور سمیت ملک کے پچاس سے زائد شہروں میں ترقی پسند طالب علموں کی طرف سے یکجہتی مارچ کیے گئے۔
اس مارچ کا اہتمام بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی دو درجن سے زائد ترقی پسند تنظیموں پر مشتمل سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کیا تھا۔ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت کئی ممالک کی جامعات میں پڑھنے والے طلبہ نے بھی طالب علموں کے اس یکجہتی مارچ کی حمایت کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے نام ایک مشترکہ خط لکھا ہے، جس میں سٹوڈنٹس یونینز پر عائد پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
طلبہ یکجہتی مارچ کے شرکاء کے مطالبات میں سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی، تعلیمی بجٹ میں اضافہ، فیسوں میں کمی، تعلیمی اداروں میں سکیورٹی فورسز کی مداخلت کا خاتمہ، ایسے اداروں میں جنسی ہراسگی کے خلاف قانون پر مؤثر عمل درآمد، ان اداروں کی نجکاری سے اجتناب اور بلوچستان یونیورسٹی میں ہونے والے جنسی ہراسگی کے واقعے کی کھلی تحقیقات سمیت بہت سے مطالبات شامل تھے۔
لاہور میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات ہزاروں کی تعداد میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے باہر جمع ہوئے اور پھر مارچ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے باہر تک پہنچے، جہاں ایک بڑی طلبہ ریلی کا انعقاد کیا گیا۔
اس مارچ میں طلبا و طالبات نے کئی طرح کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر ان کے مطالبات تحریر تھے۔ اس مارچ کی قیادت مظاہرے میں شریک طالبات نے کی۔ مارچ کے بیشتر شرکاء سرخ لباس یا گلے میں سرخ پٹیاں پہنے ہوئے تھے اور انہوں نے سرخ جھنڈے بھی اٹھا رکھے تھے۔
لاہور میں یہ طلبہ یکجہتی مارچ انقلابی ترانوں، مزاحمتی شاعری، فیض احمد فیض کے کلام، ڈھول کی تھاپ اور انقلابی نعروں سمیت اپنے اندر عوامی دلچسپی کے بہت سے رنگ لیے ہوئے تھا۔ ایک بینر پر تحریر تھا، ”نفرت پڑھانا بند کرو، انسانیت پڑھانا شروع کرو۔‘‘ ایک دوسرے پلے کارڈ پر لکھا تھا، ” اسموگ کی سطح کم کرو، تعلیمی بجٹ نہیں۔‘‘
مارچ کے شرکاء ‘سرخ ہے سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے،‘ اور ‘انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ ایک طالبہ شرکاء کی قیادت کرتے ہوئے نعرے لگوا رہی تھی، ‘عورت کی آواز بنا، انقلاب ادھورا ہے،‘ ‘طلبہ کی یلغار بنا، انقلاب ادھورا ہے،‘ اور ‘مزدور کی للکار بنا، انقلاب ادھورا ہے‘۔ اسی مارچ میں شریک نوجوانوں کا ایک گروپ ‘یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘ جیسے نعرے بھی لگا رہا تھا۔
مارچ کے راستے میں شرکاء کے ساتھ ساتھ اس جلوس میں مختلف ٹریڈ یونینوں، بھٹہ مزدور یونینوں، پاکستان مزدور کسان اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کے علاوہ خواجہ سراؤں کے ایک وفد بھی شامل ہو گیا۔ کئی غیر سرکاری تنظیموں کے عہدیداروں، ترقی پسند اساتذہ اور دانشوروں کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی اس مارچ میں شرکت کر کے طلبہ یکجہتی مارچ کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔
اس مارچ کے اختتام سے قبل کی گئی تقریروں میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک طالبہ محبہ احمد کا کہنا تھا، ”نوجوان خود کشیاں کر رہے ہیں، ریاست کو شرم آنا چاہیے۔‘‘ کچھ مقررین نے طبقاتی نظام تعلیم ختم کرنے اور علاقائی زبانوں کی ترویج کا مطالبہ بھی کیا۔
ترقی پسند رہنما فاروق طارق اور لال خان کا کہنا تھا کہ یہ مارچ ایک نقطہ آغاز ہے جو آگے چل کر ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کر لے گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دانشور فرخ سہیل گوئندی کا کہنا تھا، ”آج اس مارچ میں بائیں بازو کے وہ لوگ شریک ہوئے ہیں، جنہوں نے این جی اوز میں شامل ہونے یا عوامیت پسندانہ سیاست کر کے مصالحت پسندی کا راستہ اپنانے سے اجتناب کرتے ہوئے نظریاتی جدوجہد کا راستہ چنا ہے۔‘‘
مارچ میں شریک سیمسن سلامت نامی ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جاری ‘غیر اعلانیہ مارشل لاء‘ کے ماحول میں اس طلبہ یکجہتی مارچ سے نوجوانوں نے ایک اچھا پیغام دیا ہے۔