تحریر : عابد علی یوسف زئی سال بھر کے موج مستیوں کے بعد دور جدید کے سٹوڈنٹس پر ایسے کھٹن دور کا آغاز ہو چکا ہے جو زہر کا گھونٹ پینے کے مترادف ہے۔ پورا سال مختلف قسم کے فنکشنز کو انجوائے کرنے کے بعد جب امتحانات سر پر آجاتے ہیں تو گویا ان کے سروں پر قہر ٹوٹ پڑتا ہے۔
چند سال پہلے تک جب موبائل فون، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا اتنا عام نہیں ہوا تھاتب ہمارے طلباء وقت پر اپنا سکول ورک اور ہوم ورک کیا کرتے تھے۔ پورا سال کتاب اور کاپی کے ساتھ دوستی کے وجہ سے کبھی امتحان کے ایام میں انہیں راتیں جاگ کر نہ گزارنی پڑتی تھی۔ وقت پر لکھائی کرنے اور سبق یاد کرنے کے سبب عین موقع پر ذہنی اذیتیں برداشت کرنے کی نوبت نہیں آتی۔
صرف معمول کے مطابق پڑھائی کے ساتھ سر سری مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ اور یوں امتحان کی تیاری مکمل۔موبائل اور انٹر نیٹ سروسز نے جہاں آسانی پیدا کی ہے وہاں یہ لا تعداد مسائل کے سبب بھی بنے ہیں۔ خصوصا ہمارا نوجوان طبقہ موبائل اور سوشل میڈیا کی وجہ سے قیمتی وقت کو ضائع کرکے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ موبائل فری پیکجز کی وجہ گھنٹوں باتیں کر کے نہ صرف اوقات کو برباد کر رہا ہے بلکہ اخلاق کا بھی جنازہ نکال لیتا ہے۔
Social Media
صرف اسی پر بس نہیں ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کی ہے۔ آج کل ہمارے مستقبل کے معماروں کا مفید مشغلہ فیس بک، ٹویٹر اور وٹس ایپ وغیرہ ہیں۔ صبح جیسے ہی آنکھ کھلتی ہے تو دعا پڑھنے کے بجائے فیس بک کھولتا ہے۔ واش روم جانے سے پہلے ٹویٹر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ ناشتہ کرتے ہوئے اپنے ٹیبل کو فیس بک کی زینت بنانا کبھی نہیں بھولتا۔ سکول میں کتابیں اور کاپیاں لے جانا اتنا اہم نہیں سمجھتا جتنا ٹیب، آئی میٹ اور سمارٹ فون لے جانا ضروری گردانتا ہے۔ لیکچر کے دوران کتاب سامنے ہو یا نہ ہو، فیس بک ضرور آن ہوگا۔ سکول / کالج کے بعد کے اوقات بھی انہی چیزوں کے نذر ہو جاتے ہیں۔
موبائل اور سوشل میڈیا زدہ طلباء کے سر پر جب امتحان آجاتا ہے تو اس وقت بھی اگر وہ ہمت کریں تو کچھ نہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی ان کو کامیا بی کے نام پر تباہی بیچنے والے مافیا اس وقت حر کت میں آجاتی ہے۔ تمام بک سٹورز گائیڈبکس اور پاکٹ گائیڈز سے بھر جاتے ہیں۔ طلباء کو حوصلہ دیا جاتا ہے کہ اگر آپ نے پورا سال ضائع کر دیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ چند روپے خرچ کرکے پاکٹ سائز گائیڈ خرید کر امتحان میں کامیابی حاصل کریں۔ بلاخر عین امتحان کے دوران سال بھر خواب غفلت میں گزارنے والے طلباء نقل کے ذریعے شیٹیں بھر بھر کر جمع کرتے ہیں اور امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
ہمارے بچے تو نا سمجھ ہیں۔ انہیں تو بس صرف یہی معلوم ہے کہ امتحان دے کر کسی طریقے سے پاس کراو اور اگلے کلاس میں پروموٹ ہوجاو۔ ایسے طریقوں سے آگے بڑھنی والی نسل کل جب اس ملک کے بھاگ دوڑ سنبھالیں گے تو کیا وہ اپنے فرائض سے باخبر ہوں گے؟کیا وہ اس ملک کو ترقی کے راہ پر گامزن کر سکیں گے؟ کیا نقل پر پاس ہونے والے طلباء محفوظ اور مضبوط مستقبل کی ضمانت ہے؟ہم اپنے بچوں کو کیسا مستقبل دیں گے؟ پچھتانے سے بہتر ہے کہ آج ہی ایک مثبت فیصلہ کریں۔